Skip to content Skip to footer

جزا کا خدائی قانون

یہ کائنات اختلافات کی رنگا رنگی اورتنو عات کے عجائبات کا نگارخانہ ہے۔ اس کا حسن اختلافات کی آویزشوں کا نتیجہ ہے۔اس کا نظم اس افتراق میں جھلکتا معجزہ ہے۔ حکمت کی ساری اساس اور دانش کی ساری جستجوکا منتہیٰ اس کے اختلاف میں وحدت کی دریافت اور اس کے افتراق میں یکسانیت کا حصول ہے۔ مادہ کے اس ڈھیر میں اس ذات بے ہمتا کی سب سے بڑی کلید اہل نظر اسی کو قرار دیتے ہیں۔

یہ اختلافات، افتراقات اور تنوع صرف آفاق کا ہی عنوان نہیں، بلکہ انفس انسانی بھی اسی کی رزم گاہ ہے۔ ایک انسان کادوسرے سے چہرہ ، رنگ و روپ او ر صوت وآہنگ کاہی اختلاف نہیں، بلکہ ذ و اق و حا لات میں بھی نہایت درجہ کا تفاوت ہے ۔اہل مذہب کے لیے ان میں وحدت کی تلاش بھی حکمت الہٰیہ کا سر مخفی ہے۔

مذہب کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ یہ دنیا اصلاً آزمایش کے اصول پر بنائی گئی ہے اور اس آزمایش کا ظہور اس کی صفت خلاقیت کے تحت ہوا ہے۔ لہٰذا یہ تنو ع اسی کا مظہر ہے۔ یہاں ہر شخص کو علم و عمل میں پا کیزہ رہنے کا امتحان درپیش ہے، اس میں اس کی کار کردگی کے موافق آخر ت میں اسے جزا اور سزا ملے گی جوکہ اصلاًانصاف کے اصول پر بنائی گئی ہے، اس عالم میں کارگردگی کے مطابق وہاں انسان اپنی دنیا آپ بنائے گا اور عمل کے علاوہ وہاں کوئی چیز اثر انداز نہ ہوسکے گی ۔

اس مقدمہ کو اگر مان بھی لیا جائے تب بھی اس موقع پر یہ سوال پوری شدت کے ساتھ ہر ذی شعور صادر کر سکتا ہے کہ جس کار گردگی پر آخرت میں انسان نے جزا و سزا پانی ہے، اس کے مواقع اس دنیا میں سب کے لیے یکساں نہیں ہیں۔ آخرت میں تو علم کی بابت سوال ہوگا اور عمل کو بھی جانچا جائے گا، مگردنیا میں نہ علم کے حصول کے ذرائع یکساں ہیں اور نہ عمل کے مواقع ایک جیسے، اس کی مثالیں ہر جگہ بکھری پڑی ہیں کہ جن کا شمار ’لا یعدو لا یحصی‘ ہے،اسی سوال کی انتہائی صورت یہ ہے خود اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے بعض کو پیغمبری کے منصب سے سرفراز کرتا ہے ۔ مذہبی روایت میں یہ بات طے ہے کہ پیغمبر کا رتبہ بہر کیف بقیہ انسانیت سے بالا ہے۔

اس سوال کے جو جوابات دیے جاتے ہیں، اس تحریر میں انھی کی تنقیح مقصود ہے۔

پہلا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ بے شک انسانوں کے لیے کارکردگی کے مواقع مختلف ہیں، مگر اصول یہ ہے کہ جس کی آزمایش سخت ہے، اس کا انعام بھی زیادہ اورجس کی آزمایش کم ہے اس کی جزا بھی کم۔ اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ پیغمبر کی موجودگی کی وجہ سے اس کے نہ ماننے کی سزا سخت، تو ماننے کی وجہ سے مرتبہ بھی صحابی کا۔رہا یہ سوال کہ دیگر زمانے کے لوگوں کو یہ موقع کیوں نہیں فراہم کیا کہ وہ بڑے انعام کے حصول کے لیے بڑا خطرہ مول لیتے؟ تواس کا جواب یہ دیا گیا کہ دنیا میں مواقع کی تقسیم اورپھر اس حساب سے جزا اور سزا کا حصول انسان کا خود اختیار کردہ ہے، لہٰذا انسان کو اس پر اعتراض کا حق نہیں۔ انسانوں نے خود اپنے لیے یہ امتحان کے اختلافات تجویز کیے ہیں اور یہ بات قرآن اس طرح واضح کرتا ہے کہ ، نہ صرف انسان نے خود آگے بڑھ کراس امانت کا بوجھ اٹھایا، بلکہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ہر انسان اس وقت انفرادی طور پر موجود تھا، اس لیے بظاہر اس بات میں کوئی مانع نہیں کہ ہر انسان کو یہ اختیار بھی دیا جاتا کہ وہ آزمایش کا درجہ بھی خود چن لے۔

ہمارے نزدیک یہ جوابات قابل تسلی نہیں ہیں۔

جہاں تک عقلی تشفی کا سوال ہے تو ایک ایسے واقعہ کے بارے میں جو انسانوں کو یاد نہیں یہ الزام دینا کہ تمھیں قیامت میں جزا فلاں سے کم ملے گی، اس لیے کہ تم نے خود ہی یہ پیکج قبول کیا۔ کم از کم عذر گناہ بدتراز گناہ ہے۔ انسانوں کے لیے قیامت کی سب سے بڑی کشش ہی یہی ہے کہ وہاں حسب آرزو پا سکے گا، یہی چیز اس کے حوصلوں کو مہمیز دیتی ہے ، وہ عقبات طے کرتا ہے اور نیکی کی بازیاں لڑتا ہے، جبکہ ا نسان کے فطرت شناس جانتے ہیں کہ صرف سزا کی کمی کے سہارے بڑے درجات سے دست برداری عالی حوصلہ لوگوں کے لیے معرکہ سے پہلے ہی شکست کا اعلان ہے:

تم کہتے ہو کہ وہ جنگ ہو بھی چکی

جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم

قرآن مجید میں سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۷۲ اور سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت ۷۲ میں آیا کوئی حسی واقعہ مراد ہے یا یہ کوئی تمثیل ہے۔ اس سے قطع نظر یہ آیت تو اپنے سادہ ترجمہ سے واضح کر رہی ہے کہ فیصلہ سب انسانوں نے یکساں طور پر کیا ہے نہ کہ ہر ایک نے اپنے لیے جداگانہ راہ کا انتخاب کیا ہے، بلکہ ان آیتوں سے اسی مدعا کا ثبوت مقصود ہے کہ رنگ و نسل اور زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود انسانوں کا جس بات میں امتحان مقصود ہے، وہ سب کے لیے یکساں طور پر میسر ہے۔ مزید برآں سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۷۳ پڑھی جائے:

اَوْ تَقُوْلُوْا اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنْ بَعْدِہِمْ اَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ.

یہاں اسی اعتراض کا جواب پیش نظر ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں گے کہ ہم تو بعد کے زمانہ میں آئے۔ اس لیے ہمیں وہ ذرائع ہدایت میسر نہ تھے جو بعض دوسروں کو تھے تو گویا یہ آیت خود قطعی شہادت ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے امتحان برابری کی سطح پر لینا ہے۔

اور دوسرا جواب جو قابل فہم ہے، وہ یہ ہے کہ امتحان اپنی صورت کے لحاظ سے تو یقیناًسب سے مختلف ہے، مگر نسبت/ تناسب/ فیصد کے اعتبار سے نتیجہ کار سب سے برابر ہے، یعنی جس کے لیے بظاہر ذرائع ہدایت زیادہ آسانی سے میسر ہیں، اس کے لیے دیگر مشکلات ، سخت تر ہوگئی ہیں۔ دیکھیے اہل پاکستان کے لیے بظاہر فہم دین کے ذرائع اتنے زیادہ ہیں، مگر اظہار حق کی راے محدود۔ اہل یورپ کے لیے فہم کی مشکلات ہیں، مگر اظہار حق ’ھنیئًا مريئًا‘ ہے ۔

تو یوں کہیے کہ یہ جو دنیا میں آخرت کے امیدواروں کو مختلف پرچے دیے گئے ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ الگ الگ پوسٹ کے امیدوار تھے تبھی سب کو الگ الگ پرچہ دیا گیا ہے، بلکہ پوسٹ سب کی ایک ہے۔ پرچہ سب کو اس کے علم کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ جتنا علم اتنا تفصیلی پرچہ۔ جتنا کم علم اتنے آسان سوالات۔ اس طرح دونوں کی آسانیاں اور مشکلات برابر ہیں اور جس کے اپنے حساب سے نمبر آئیں گے، انعام میں وہ برابر ہوگا۔

لہٰذا پیدایشی مسلمان خوش نہ ہوں، ان کے لیے بھی جہاں اور جتنا حق واضح ہوا ہے کہ اس کو ماننے کی ذمہ داری باقی ہے، آج ہی کے کچھ بدبخت روز قیامت ابوجہل کے ساتھ ہوں اور بعض خوش نصیب انبیا کی معیت میں ہوں گے۔

یہ جواب اگرعقل کی میزان میں وزن رکھتا ہے تو پھر بتانا ہوگا، خود خدا کی آخری کتاب میں اس کا فیصلہ کیا ہے۔ ہر زمانہ کے لیے امتحان اپنی حقیقت میں اور انعام اپنے انجام کے لحاظ سے یکساں ہیں یا زمان و مکان کی تبدیلی کے باعث انعام مختلف ہوگا (سزا اسی کا عقلی لازمہ ہے)۔ دیکھیے سورۂ نساء (۴) کی آیت ۶۹ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی جس زمانہ میں اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کا معیار پورا کرے گا، وہ اپنے عمل کے لحاظ سے انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ یہ معیت انعام کی یکسانیت کے لیے قول فیصل ہے۔ اور اگلی ہی آیت میں یہ ارشاد ’ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ‘ کو اگر اس اعتراض کی روشنی میں ملاحظہ کیا جائے تو عجب دل نواز تسلی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ کے لوگوں کے لیے اپنے فضل سے معیت کا یہ انعام دیا ہے۔

اسی طرح سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۱۰۰ میں کہ السابقون الاولون کے ذکر کے بعد متبعین کا تذکرہ کیا گیا اور سب کو بشارت اور ایک ہی نوید سنائی گئی ہے کہ ’رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا‘۔

اس کے علاوہ سورۂ واقعہ میں تو اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک انداز میں یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ بلند درجات ہر عہد میں ہر ایک کو دعوت مبارزت دیتے ہیں۔ ’وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ اُولٰٓءِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَقَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ‘( ۵۶: ۱۰۔۱۴)

اس کے بعد اس سوال کا آخری، مگر نازک پہلو باقی رہ گیا کہ بہرکیف نبی کا مرتبہ، عام انسانوں کے لیے اس کا حصول ممکن نہیں ہے ۔یقیناًنہیں ،ایسے ہی جیسے کسی بے وزن کے لیے شاعر بننا ممکن نہیں۔ لیکن اس سلسلے میں عقل انسانی تدفیق سے کام لے تو یہاں دو چیزیں ہیں: ایک احترام اور دوسرا انعام۔ احترام تو دوسرے کے لیے فطرت کا خوب صورت احساس ہے، اس کو بجا لانے سے انسان میں محرومی کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ یہ تو خود احترام کرنے والے میں مسرت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

احترام کسی کارہاے نمایاں کے بغیر بھی انسان کر لیتا ہے،مگرکیا انعام بھی انسان اس کے بغیر برداشت کرسکتا ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔انعام میں بنیاد صرف کارکردگی ہو سکتی ہے۔ اس کو سادہ مثال سے سمجھیں،ایک استاد اور شاگرد کے رشتہ میں شاگرد بہرکیف احترام اور ادب کے لحاظ سے استاد سے کم ہے،اس کو کوئی انسان نہ انصافی بھی نہیں کہہ سکتا ۔لیکن کیا شاگرد اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے بھی استاد کے برابر نہیں ہوسکتا؟یہ ماننا ناانصافی ہے۔ جس کا آں سوے افلاک اس روز عدل صدور ممکن نہیں۔

(جنوری 2014ء)

Leave a comment