“جہاد کے فتوے، ریاستی پالیسی اور کشمیر کا محاذ”
(تحریر: محمد حسن الیاس)
دین و شریعت نے مسلح جدوجہد کے بارے میں جو اصول واضح کیے ہیں، ان میں تین نکات خاص طور پر نمایاں ہیں: اول، ایسی جدوجہد صرف باقاعدہ ریاستی نظم کے تحت کی جائے؛ دوم، اس میں قیادت کی اطاعت لازم ہو؛ اور سوم، اس کا مقصد ظلم و عدوان کا خاتمہ ہو، نہ کہ فتنہ و فساد کا فروغ۔
بدقسمتی سے جب ان اصولوں کو نظرانداز کر کے خودساختہ مسلح گروہ ریاستی نظم سے باہر کارروائیاں کرتے ہیں، اور محض سیاسی تنازعات کو ایک مقدس دینی مشن کا درجہ دے دیتے ہیں، تو اس کے نتائج نہایت تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔
بعض اوقات یہ کارروائیاں خود ریاستوں کے غیر علانیہ منصوبوں کا حصہ بھی ہوتی ہیں، جن میں وقتی اسٹریٹیجک مفاد کے لیے ایسے گروہوں کو دانستہ یا نادانستہ طور پر پروان چڑھایا جاتا ہے۔ لیکن جب یہی عناصر ریاستی قابو سے باہر ہو جاتے ہیں، تو وہ اپنی شناخت کھو کر ایک خودکار تباہ کن طاقت بن جاتے ہیں۔ ان کا خمیازہ وہی ریاستیں بھگتتی ہیں جو کبھی ان کی سرپرست رہی ہوتی ہیں۔ پاکستان اس تلخ تجربے سے گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل گزر رہا ہے۔
عسکری سوچ اکثر اس حقیقت کو نظرانداز کر دیتی ہے کہ مذہبی جوش و خروش سے سرشار افراد روایتی فوجی نظم و ضبط یا کمانڈ سسٹم میں ڈھلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان کی تحریک حکمت عملی یا ادارہ جاتی ہدایت سے نہیں، بلکہ ایک شدید ایمانی جذبے سے پھوٹتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی پالیسی میں محض ترمیم یا احکامات ان کے لیے اس حیثیت کے حامل نہیں ہوتے جو کسی تربیت یافتہ سپاہی کے لیے ایک اعلیٰ افسر کا حکم ہوتا ہے۔
نتیجتاً، یہ افراد اکثر برسوں سلیپنگ سیلز کی صورت میں خاموشی سے موجود رہتے ہیں، اور جیسے ہی کوئی موقع سامنے آتا ہے، وہ اس اقدام کو دینی فریضہ، غیبی نصرت کی تمہید اور فوری عمل کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ریاست نے اس کی اجازت دی ہے یا محض خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اور چاہے اس کے لیے کوئی منظم حکمت عملی موجود ہو یا نہ ہو۔
خصوصاً جب منبروں اور عوامی بیانات کے ذریعے نوجوانوں کو مسلسل یہ پیغام دیا جا رہا ہو کہ جہاد واجب ہو چکا ہے، اور جو حکمران اس فریضے کو ادا نہیں کر رہے وہ کمزور یا بزدل ہیں، تو وہ نوجوان، جو اخلاص اور دینی جذبے سے سرشار ہوتے ہیں، خود کو اس خطاب کا اصل مخاطب سمجھتے ہوئے میدان عمل میں اتر آتے ہیں۔ جذبات سے لبریز یہ ترغیب، جب ریاستی نظم، قیادت اور حکمت عملی سے کٹی ہوئی ہو، تو وہ ایک خطرناک رخ اختیار کر لیتی ہے۔ ایسا رخ جو فرد کے ہاتھوں شروع ہوتا ہے، مگر اس کی لپیٹ میں پورا معاشرہ اور پوری ریاست آ جاتی ہے۔
ایسا ہی معاملہ ہمیں گستاخ رسالت کے بیانیے میں نظر آتا ہے، جہاں منبروں سے سزاؤں کی وعیدیں، جزا کی بشارتیں اور جذبات انگیز خطابات اس شدت سے سنائے جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی لمحے کوئی ممتاز قادری اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ خود کو ان خطابات کا براہ راست مخاطب سمجھ کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے، اور بعد ازاں جب مذہبی قیادت یہ مؤقف پیش کرتی ہے کہ قانون کو اپنا کام کرنا چاہیے تھا، تو یہ جملہ محض رسمی اور بے اثر محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ جب بیانیہ اس قدر بے قابو ہو جائے، تو نہ قانون آزاد رہتا ہے، نہ عدالت خودمختار، اور نہ ہی عوامی جذبات نظم و ضبط کے کسی دائرے میں رہتے ہیں۔
آج کشمیر میں ہونے والا حملہ ایک بار پھر کشیدگی کے ایک نئے دور کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ پاکستان، جو اس وقت معاشی بحالی کے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے، اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی نئے بحران یا بھارت جیسے طاقتور ملک کے ممکنہ ردعمل کو برداشت کر سکے۔
قومی مفاد اور دینی حکمت دونوں کا تقاضا یہی ہے کہ ریاستی نظم سے باہر انجام دی جانے والی مسلح کارروائیوں کو نہ کسی دینی تعبیر کا جواز دیا جائے، اور نہ ریاست کی کسی سطح پر ان کی براہ راست یا بالواسطہ پشت پناہی باقی رہنے دی جائے۔ ہم اس کی قیمت پہلے ہی طالبان کے تجربے میں چکا چکے ہیں، جب دو دہائیوں تک یہی آگ ہمارے شہروں، بازاروں اور چوک چوراہوں کو خاکستر کرتی رہی۔ ایک ایسی آگ جو ابتدا میں کسی پالیسی کا آلہ کار تھی، اور بعد میں خود پالیسیوں کو جلا کر راکھ کر گئی۔ اگر ہم نے اس المیے سے کچھ نہ سیکھا، تو یہ آگ ایک بار پھر ہمارے دروازے پر ہوگی، اور اس بار شاید مزید گہرائی تک پھیل جائے۔