قرآن مجید ہمیں ہمارے سب سے بڑے دشمن کا ایک ایسا چونکا دینے والا راز بتاتا ہے جو انسان کو اپنے باطن میں جھانکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
“وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ” (الانفال: 48)
“اور جب شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوشنما بنا دیے۔”
یہ بظاہر معمولی سی بات لگتی ہے، لیکن یہی سب سے بڑا دھوکہ ہے:
شیطان ہمیں زبردستی برائی پر نہیں اکساتا، بلکہ ہمارے دل و دماغ کو اس طرح الجھا دیتا ہے کہ برائی نیکی جیسی لگنے لگتی ہے۔
چنانچہ ہم جھوٹ کو حکمت کا نام دیتے ہیں، ظلم کو حق کے لیے جنگ سمجھتے ہیں، خودغرضی کو حق شناسی قرار دیتے ہیں، حسد کو محنت کی علامت بنا لیتے ہیں، تلخی کو خیرخواہی کا لباس پہنا دیتے ہیں، بدزبانی کو حمیتِ حق کا روپ دے دیتے ہیں، تکبر کو اعتماد کی علامت سمجھنے لگتے ہیں، اور غیبت کو بیانِ واقعہ کہہ دیتے ہیں۔
جو باتیں ہم بار بار دہراتے ہیں، وہ لمحہ بہ لمحہ ہماری نفسیات، سوچ اور پہچان میں رچ بس جاتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم حق کی خدمت کر رہے ہیں، لیکن درحقیقت ہمارے دلوں میں ہماری اپنی خواہشات اس قدر دلکش بنا دی جاتی ہیں کہ ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی کب اور کہاں سے شیطان اپنا وار کر چکا ہے۔
سوشل میڈیا نے ان رویوں کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے، اور ہم آہستہ آہستہ:
گالی کو جرأت
تذلیل کو مزاح
بدزبانی کو غیرت
تحقیر کو نصیحت
تنابز بالالقاب کو سچائی
بےعزتی کو معاشرتی اصلاح
افواہ کو آگہی سمجھنے لگ جاتے ہیں۔
قرآن ہمیں بار بار خبردار کرتا ہے کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔
وہ دشمن جس کی چالیں اس قدر پوشیدہ، بے آواز اور شاطرانہ ہوتی ہیں کہ ہم اپنے برے اعمال کو نیکی سمجھ کر اطمینان کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی کہ وہ کب ہمیں گمراہی کی طرف لے جا چکا ہے۔
ہم سب کو یاد رکھنا ہے کہ اصل خطرہ غلطی میں نہیں ہوتا، کیونکہ وہاں سے پلٹنے کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں۔ اصل خطرہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان غلطی کو نیکی سمجھ کر اس پر ڈٹ جاتا ہے۔
اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کو دوسرے برائی کہہ کر ہمیں متنبہ کرتے ہیں، ہم اسے اپنی خوبی سمجھ کر اپناتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو شیطان کے اس فریب سے محفوظ رکھے، اور اپنے اعمال کا بار بار جائزہ لینے اور خود کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
محمد حسن الیاس