Skip to content Skip to footer

مجسم بزرگ اور خالص انسان

’’المورد‘‘ کے حلقۂ علما کے پہلے عالم رخصت ہوئے ، ’’بے شک ہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔‘‘

علامہ عبدالستار غوری صاحب سے میرے تعلق کی سرحد ایک ملاقات سے زیادہ طویل نہیں—- ان کے کام سے تعارف تو پہلے سے تھا، لیکن ’’المورد‘‘ لاہور کی عمارت میں جب انھیں پہلی بار دیکھا تو ان کے اندر بہت دور تک دکھائی دیتا تھا، مجسم بزرگ اور خالص انسان—- ۔

خالص انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے شفاف ہوتا ہے، اس کی فطرت اس چشم صافی کے مانند ہوتی ہے جس کا ہرہر قطرۂ آب منزہ و چمک دار اور اس کا خارج باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اس کے دامن میں کسی غلطی کا داغ نہیں آ سکتا، لیکن وہ داغ وجود کا حصہ بن کر گم ہوجائے، فطرت کی تابندہ ردا اس امکان کوزیادہ دیر قائم نہیں رکھ سکتی۔

غوری صاحب کے درون تک رسائی میں کوئی چیز مزاحم نہ تھی۔ وہ لاریب، بزرگی اوراخلاص کا استعار ہ تھے۔ الہامی صحائف ان کی علمی تحقیق کا موضوع بنے۔ اسی حوالے سے میں نے کچھ طالب علمانہ سوالات ان کے سامنے رکھے اور اس روایت پر ان کی راے جاننا چاہی جس میں حضور نے سیدنا عمر کے ہاتھ میں تورات کا ٹکڑا دیکھ کر ناگواری کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے اور اس کی کوئی توجیہہ بھی نہیں ہوسکتی، کیونکہ جس کتاب کے بارے میں قرآن حکیم میں کہا گیا ہو: ’فِیْہِ ھُدًی وَّ نُوْرٌ‘، تو کیسے مانا جا سکتا ہے کہ اس کو پڑھنے پر ناگواری کا احساس ہو، جبکہ اس کے بر عکس خود حضور سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے عبداللہ بن سلام کو تورات پڑھنے کی اجازت دی اور کہا: ’إقرأ ھذا لیلۃ وھذا لیلۃ‘۔ اسی طرح عبداللہ بن عمر کے تورات سے تعلق کو بیان کیا۔ وہ بتانے لگے کہ مسلمانوں کے علمی ٹریڈیشن میں اس کے مطالعے کی تاریخ رہی ہے۔ ابن سعدکے حوالے سے کہا: ایک مشہور تابعی بزرگ ابوالجلاالجونی تو ہفتے میں قرآن کے ساتھ تورات کا بھی ختم کیا کرتے تھے ،لیکن آج کل دین کے طالب علم اس لٹریچر کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے جس کو بطور دلیل خود قرآن نے پیش کیا ہے۔ یہود کے حوالے سے یہ کہ سیدنا عزیر کو وہ تو خدا کا بیٹا نہیں کہتے، جبکہ قرآن نے یہ بات یہود کے حوالے سے کہی ہے، تو ان کا کہناتھا کہ مدینے میں آباد یہودی بہت عرصے پہلے بنی اسرائیل سے الگ ہوگئے تھے، یہ ٹھیک ہے کہ بنی اسرائیل میں اصلاً یہ عقیدہ نہیں تھا، لیکن مدینے میں آباد یہودی قبائل ہی کا یہ عقیدہ تھا ،اور قرآن نے انھی کو مخاطب کیا ہے۔

غوری صاحب نے اس تحقیق کے علمی پہلو بھی واضح کیے کہ بائیبل میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کے حوالے سے جو پیشین گوئی بیان ہوئی ہے، اس کا مصداق سیدنا مسیح نہیں، بلکہ یہ پیشین گوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوش خبری ہے، اور ان کی یہ تحقیق اہل کتاب سے دعوت کا عنوان بن سکتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ وہ ایک بلند پایہ محقق تھے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے اس کام کے طفیل، انھیں بھی جنت کی خوش خبری سنا دے۔ آمین۔

(جون 2014ء)

Leave a comment