Skip to content Skip to footer

والد محترم ــــ چند یادیں، چند باتیں

والد گرامی قدر محمد الیاس حیدری اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ إنا للّٰه وإنا اليه راجعون۔

ماں باپ کا رشتہ زمین پر خدا کا سایہ ہوتا ہے۔جس طرح ہمارا پالن ہار کائنات کی تدابیر سر انجام دیتا ہے،اسی طرح اس کی تفویض سے دنیا میں اولاد کے لیے یہ خدمت والدین ادا کرتے ہیں۔اس بنا پر ہر اولاد کا سر اپنے والدین کی عظمت کے آگے جھکتا،محبت سے ان کی طرف لپکتا اور ان سے تعلق کے جذبے سے سرشار رہتا ہے۔ لیکن میرے دل میں اپنے والد کی عظمت اس سے بڑھ کر تھی، اس لیے کہ وہ صرف ایک باپ نہیں، بلکہ اعلیٰ درجے کے انسان تھے۔

والد محترم کی زندگی کے تین ایسے پہلو ہیں جنھوں نے مجھے بے حد متاثر کیا اور میری علمی اور عملی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔انھیں دیکھ کر یہ آرزو پیدا ہوتی ہے کہ ہم بھی انھیں اپنائیں اور اپنی نسلوں میں بھی انھیں پیدا کرنے کی سعی کریں۔وہ پہلو یہ ہیں:

محنت اور خود اعتمادی

۶۰ءکی دہائی تھی،والد صاحب پندرہ سولہ برس کی عمر میں ہزارہ کی پہاڑیوں سے اتر کر کراچی پہنچے تو ان کے لیے یہ ایک نئی دنیا تھی؛ تہذیبی لحاظ سے بھی اور معاشی لحاظ سے بھی۔خاندان کئی پشتوں سے مذہبی علم کی تحصیل میں سرگرم رہا۔تاہم والد صاحب کو یہ احساس تھا کہ وہ اصلاً اس مقصد کے لیے پیدا نہیں کیے گئے۔بچپن میں درس نظامی کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، لیکن پھر عصری تعلیم کو اپنا میدان بنایا۔کبھی ان کے ساتھ گاؤں سے گزر ہوتا تو بتاتے تھے کہ کیسے ان پہاڑی پگڈنڈیوں پر روزانہ میلوں کا سفر کر کے اسکول پہنچتے تھے۔ یہی خواہش انھیں اعلیٰ تعلیم کےلیے کراچی لے آئی۔ پس منظر میں صرف باپ دادا کی علمی خدمات اور معاشی کسمپرسی تھی۔ گاؤں کے کسی تعلق دار نےقدرت اللہ شہاب سے ملاقات کرائی۔ ایک نوجوان کی تعلیم سے محبت دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ اسکالر شپ کی ذمہ داری لے لی۔والد صاحب بتاتے تھے کہ اس زمانے میں کراچی کے چند علاقوں میں ہی بجلی ہوتی تھی۔بیش تر وقت برلب سڑک برقی قمقموں کی روشنی میں ہی پڑھتے اور ساتھ ملازمت بھی کرتے تھے۔پہلے کالج کی تعلیم مکمل کی، پھر ٹیکسٹائل میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے نتیجےمیں اعلیٰ درجے کی نوکری مل گئی۔ ہمارے پورے گاؤں اور مضافاتی علاقوں میں پہلے نوجوان تھے، جو اس درجے تک تعلیم حاصل کر کے اعلیٰ ملازمت پر فائز ہوئے ہوں۔ عین عالم شباب میں دل کے عارضے میں مبتلا ہو گئے۔ ۳۶ سال کی عمر میں ایک کٹھن بائی پاس ہوا۔ کچھ عرصے بعد اسے دہرانا پڑا۔ اس دور کے حوالے سے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے اپنی ایک یادداشت میں انھوں نے لکھا ہے:

’’میں ۳۶ سال کی عمر میں دل کی تکلیف میں مبتلا ہوا، اسی سال اپنے پہلے بائی پاس آپریشن میں سی سی یو میں جیسے ہی ہوش میں آرہا تھا۔نیم غنودگی سی تھی کہ پیٹھ پر معمولی سی خارش محسوس ہوئی۔خود کوشش کی، مگر ہل جل نہیں سکتا تھا۔ لہٰذا خود اپنے جسم پر خارش کرنے پر قادر نہ تھا۔اسٹاف کو درخواست کی، مگر میری آواز اتنی مدھم تھی کہ شاید اس نے بھی نہیں سنی۔اب کے بار مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے جاہ و مقام،عہدے و حیثیت، طاقت کے گھمنڈ اور جوانی میں انسانی لاچارگی کی حقیقت کا احساس ہوا،اور اسی احساس میں ندامت کے چار آنسو بھی بہ نکلے۔

میرے بچو، اس طرح کے واقعات آپ کے ساتھ بھی پیش آئیں گے۔ یہ انسان کی سرشت ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز،صحت اور عمر کے تغیر و تبدل اسی کی یاددہانی کراتے ہیں۔یہ دنیا کمرۂ امتحان ہے۔ اس عارضی سراے کو مستقل نہ بناؤ۔

یہی ہماری حقیقت ہے۔ہم دنیا پر حکومت کرنا چاہتے ہیں، لیکن اپنے جسم پر بھی اپنا حکم نہیں چلتا۔

پھر بچو، یہ گھمنڈ کس بات کا؟جو جتنا جلد اپنی حیثیت کا ادراک کر لے اتنی جلدی اصلاح کی کوشش شروع کردے گا۔اپنی زندگی متوازن اور آخرت کو کامیاب بنانے کے لیے کوششیں شروع کر دے گا:

نہ سکندر ہے نہ دارا ہے نہ قیصر ہے نہ جم

بے محل خاک میں ہیں قصر بنانے والے‘‘

یہ ابتدا تھی، اس کے بعد پوری عمر اسی مرض کے مختلف مراحل پیش آئے، مزید بائی پاس ہوئے، متعدد اسٹنٹ ڈالے گئے، لیکن والد صاحب نے اس آزمایش کا چار دہائی تک جس قدر ہمت اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا، واقعہ یہ ہے کہ دیکھنے والے کو اندازہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ کچھ گزر رہا ہے۔ ہر صبح ایک نئی امید کے ساتھ ہوتی،ہر نئے امکان کو اسی ہمت سے تلاش کرتے، ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کو تیار رہتے، زندگی اور اس کی رونقوں کو بھرپور طریقے سے جیتے اور سماجی رابطوں کو ہر وقت بحال رکھتے تھے۔

مختلف مذہبی تحریکوں سے بھی وابستہ رہے۔تحریک ختم نبوت سندھ کے جنرل سیکٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں،کم و بیش پچاس سال کا کارپوریٹ کیریئر رہا، ملنے والے ان کی ہمت اور حوصلے پر حیران ہو جاتے تھے۔اطبا بھی یہی کہتے تھے کہ یہ آپ کی قوت ارادی اور اعتماد ہے، جو آپ کے اعضا کو جینے کا حوصلہ فراہم کرتے ہیں۔

والد صاحب نے یہی عادت ہم بچوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی،زندگی میں ہار مانے بغیر آگے بڑھنے کا جذبہ،نا ممکنات میں سے حل نکالنا اور ایک دفعہ جو کرنے کی ٹھان لی، اسے کر گزرنا۔مجھے یاد ہے کہ یہ اعتماد وہ زندگی کے ہر ہر مرحلے پر ہمیں دیتے تھے۔بچپن کی بات ہے، رمضان کا مہینا تھا،مجھے افطار کا کھانا دے کر پڑوس میں بھیجا کہ فلاں صاحب کو دے آؤ۔ میں نکلا تو مجھے ایک دوسرے پڑوسی نظر آئے، جن کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ ان کے اہل خانہ گھر پر نہیں ہیں۔ چنانچہ میں نے اپنی راے سے انھیں وہ کھانا یہ کہہ کر دے دیا کہ والد صاحب نے آپ کے لیے بھیجا ہے۔پھر خیال آیا کہ یہ تو گڑبڑ کر بیٹھا ہوں، واپس لوٹا اور ان سے عرض کیا تو انھوں نے گلے لگایا اور فرمایا: تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔ زندگی میں آگے بھی عقل کی روشنی میں جو کچھ ٹھیک لگے، بس وہی کرنا۔ مجھے کبھی اعتراض نہ ہوگا،چاہے میری مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

 یہ حقیقت ہے کہ ان کے اس رویے ہی سےمجھ میں خود اعتمادی اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ پھر چاہے تعلیمی میدان کا انتخاب ہو، ہجرت کے فیصلے یا پھر عائلی زندگی کے معاملات۔یہی مہمیز تھی جس نے بڑے بڑےفیصلے کرائے۔

ہمیشہ فرماتے تھے: بچو، منصب ذمہ داری سے ملتا ہے،اور ذمہ دار شخص کا رویہ ہمیشہ متنبہ رہنے والا ہوتا ہے۔ایک دفعہ آدھی رات کو مجھے جگا کر کہنے لگے کہ اٹھو، مجھے فیکٹری لے چلو،میں نے عرض کیا: آپ اتنے بڑے افسر ہیں،کسی دوسرے کی ملازمت میں اتنی جان گھلانے کی کیا ضرورت ہے؟ تو فرمایا کہ بیٹا، جس نے میرے بچوں کی معاش کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے، مجھے بھی اس کے املاک کی حفاظت ایسے ہی کرنی ہے،جیسے اس نے میری اولاد کی کی ہے۔اس نے میری ضروریات کی ذمہ داری لی،اس کی نگرانی میرا فرض ہے۔ والدصاحب یہ فرض عمر کے آخری سالوں تک بہت ایمان داری اور لگن سے نبھاتے رہے۔

وسعت نظر اور برداشت

والد محترم نے ایک خاص مذہبی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ بچپن تا بڑھاپا ایک گہری مذہبی روایت میں گزرا۔بڑے بڑے علما اور بزرگوں کا نام بھی جڑا تھا۔پھر جہاں جہاں آکر آباد ہوئے، سماجی اور معاشی وابستگیاں بھی اسی حلقۂ فکر سے وابستہ تھیں۔اس سب کے باوجود ایک عام آدمی کی حیثیت سے انھوں نے اپنے ذہن کو کبھی جمود کا شکار نہیں ہونے دیا ۔فکری سطح پر نئے افکار کی قبولیت کے لیے اپنے دماغ کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے۔میرے دینی سفر کی ابتدا تبلیغی جماعت سے ہوئی اور میں کچھ عرصے بعد انھیں قائل کرنے لگا تو ایک دن مجھے لیا اور ہر مسلک کے بڑے علما کے پاس لے گئے۔کہا: ان سے گفتگو کرو،ان کے زاویے کو بھی سمجھو،تم دیکھو گے کہ ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ خیر ہے۔

میں نے جب دین کا عالم بننے کا فیصلہ کیا تو ارد گرد کا ماحول اس کے لیے سازگار نہیں تھا۔والد صاحب نے اس موقع پر اسٹینڈ لیا اور مجھ سےکہا کہ میرے دیگر بچوں کے لیے جو وسائل ہیں، اس سے دگنے تمھارے اس کام کے لیے وقف کرتا ہوں، لیکن بس ایک نصیحت ہے کہ دین کا عالم بننا کسی مسلک اور فرقے کا نہیں،مگر انسان کہاں رکتا ہے۔ اس کے بعد میرے فکری سفر میں انتہائی سخت گیر مذہبیت پیدا ہوگئی،یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ مجھے والد محترم بھی گم راہ لگنے لگے۔بڑی زور دار بحثیں ہوتیں۔بسا اوقات رات رات بھر چلتیں،میں ان کی اس وسعت ذہنی کو آڑے ہاتھوں لیتا،ان کی بعض مذہبی سیاسی آرا پر بھی سخت ترین تنقید کرتا، لیکن جس کمال نے میرے سر کو چند ہی سالوں میں جھکا دیا، وہ ان کی قوت برداشت تھی۔

انھوں نے کبھی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔انھیں اندازہ تھا کہ اس کی عمر کا یہ وہ دور ہے جس میں جذبات کا غلبہ ہوتا ہے،لہٰذا ان کو بھی باہر نکلنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس کے بعد خدا کا کرنا کہ میں غامدی صاحب کی فکر سے متاثر ہوگیا؛بالکل ہی نیا مرحلہ۔اس وقت ارد گرد کا ماحول گویا کہ مجھ پر پل پڑا ہو۔ خدا شاہد ہے کہ اس موقع پر ایک ہی شخص میرے سر پر سائبان بن کر کھڑا ہوگیا اور ہر ہر سطح پر تحفظ اور آزادی فراہم کرتا رہا۔سچی بات یہ ہے کہ اس فکری تبدیلی میں اگر وہ میرے ساتھ نہ ہوتے تو جیسے بے آسرا محروم میمنے کو بد مست بھیڑیے نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں، ہمارا بھی یہی انجام ہوتا،لیکن انھوں نے سب کو پیغام دیا کہ یہ اکیلا نہیں ہے،ہم اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔

والد صاحب مجھ سے اکثر پوچھتے کہ اس مسئلے میں اب تمھاری فکر کیا کہتی ہے؟ ان کا آخری دم تک ایک ہی اصرار تھا کہ دل اور دماغ کو کبھی بند مت کرنا۔ تم اگر آج صدق دل سے اپنا ذہن تبدیل کر کے کسی اور رجحان کے قائل ہوگئے تو میں تب بھی تمھارے ساتھ کھڑا ہوں گا۔

اس ضمن میں ایک نصیحت ہمیشہ کرتے تھے کہ علمی اختلاف کے باعث کسی بھی مسلک کے بڑوں کی عزت میں کبھی کمی نہ کرنا۔تمھارے دادا اور نانا بھی مخلص لوگ تھے۔لہٰذا ان سے اختلاف ضرور کرو، لیکن ہمیشہ ان سے تعلق کو اپنے لیے باعث فخر سمجھو۔انھی بنیادوں سے آدمی پہچانا جاتا ہے۔

صلح جوئی اور خیرات

ہر خاندان میں بعض ایسے افراد ہوتے ہیں جن کو ہر ایک اپنا بڑا سمجھتا ہے۔اپنے دکھ درد ان کے سامنے لاتا،معاشی نہ ہمواریوں کا نالہ سناتا اور اپنی پریشانی میں اسی کے کاندھے پر سر رکھتا ہے۔

والد محترم کا ہمارے خاندان اور معاشرے میں یہی مقام تھا۔اپنے پرائے، سب ان کی مجلس میں شریک ہوتے،ان سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے اور ذاتی یا کاروباری، ہر نزاع کے حل کے لیے انھی کی طرف دیکھتے تھے۔انھوں نے پورے خاندان کو ایک وحدت میں پرویا ہوا تھا۔اس ضمن میں جو سب سے اچھی عادت میں نے نوٹس کی، وہ یہ تھی کہ جب ایک فریق دوسرے کی کوئی شکایت کرتا تو اسے کبھی کہیں بیان نہ کرتے۔ مجھ سے ایک دن فرمانے لگےکہ ہر زخم بھر جاتا ہے، لیکن یہ ترش جملوں کے زخم نہیں بھرتے۔لہٰذا صلح جوئی کا تقاضا ہے کہ انھیں کبھی بیان نہ کرو۔ اسی طرح آسودہ حال ہونے کے باعث ضرورت کے وقت ہر فرد کی نظر ان کی طرف اٹھتی تھی۔اس معاملے میں ان کا دل گویا کہ موم تھا۔جو کچھ کمایا اور اپنی ضرورت سے زائد سمجھا، اپنے مستحق رشتہ داروں پر خرچ کر دیا۔ایک دن، مجھے یاد ہے کہ گاؤں سے کوئی شخص آیا،میں دفتر میں موجود تھا،جو کچھ جیب میں تھا، نکال کر دے دیا، میں بڑا ناراض ہوا۔اتنے میں فیکس مشین کی آواز بلند ہوئی اور میمو نکلا، اتنی ہی رقم مستقل تنخواہ میں بڑھا دی گئی تھی۔اس موقع پر انھوں نے کہا کہ بیٹا، دل کبھی چھوٹا نہ کرنا، یہ اللہ سے تجارت ہے، جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوتا۔جو خرچ کرو گے، اللہ نسلوں کو لوٹائے گا۔ان کے انتقال پر ایک بڑے کاروباری صاحب ملنے آئے، کہنے لگے کہ میں مزدور تھا۔پریشان حالی میں ایک دن ان کے دفتر میں آیا تو انھوں نے مجھے پاس بٹھایا، ٹھنڈا پانی پلایا اور کہا کہ میرے پاس آج کچھ نہیں، لیکن میں آپ کی ہمت بڑھانے میں مدد کر سکتا ہوں، پھر کافی دیر زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں سمجھایا، وہ صاحب کہنے لگے کہ میری ایسی مدد آج تک کسی نے نہ کی تھی، میں آج یہاں اسی باعث پہنچا ہوں۔

ان کا ہمیشہ ایک اصرار ہوتا تھا کہ زندگی تعلیم ہے اور تعلیم زندگی۔بڑھاپے کے آخری مراحل میں بھی ہمیں ایک ہی چیز پر آمادہ کرتے رہتے کہ مزید تعلیم حاصل کرو، اور اس مقصدسے اپنے وسائل خرچ کرتے رہتے تھے۔

ہمارے والد محترم کی یہ چند خوبیاں اور یادیں آپ کے سامنے رکھیں۔وہ اصلاً ایک عام آدمی تھے،لیکن عام آدمی کو کیسا ہونا چاہیے، اس میں وہ ایک مثال تھے۔محنت، لگن، ہمت اور برداشت کا ایک نمونہ، علم و فکر میں وسعت اور بلندی کردار کی ایک داستان اور صلۂ رحمی ، انفاق اور محبت کا ایک پیکر تھے۔

والد گرامی قدر اپنا امتحان مکمل کر کے رخصت ہوئے۔یہ دکھ تو یقیناً رہے گا کہ بقیہ زندگی ان کے فراق میں گزرے گی، لیکن اطمینان بھی ہے کہ اس عارضی زندگی سے حقیقی زندگی کے سفر میں وہ بڑی جاں فشانی سے خالق اور مخلوق، دونوں کے حقوق ادا کرتے رہے۔امید ہے کہ اللہ کے فضل سے آخرت میں بھی  سرخ رو ہوں گے۔والۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ وَّ اَبۡقٰي۔ (مئی 2023ء)

Leave a comment