Skip to content Skip to footer

پاکستان میں احمدی آرڈیننس

پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والی زیادتیوں کی بنیاد وہ صدارتی آرڈیننس ہے، جو اُنھیں اسلامی شعائر کے اظہار سے روکتا ہے۔
یہ آرڈیننس اُس پارلیمانی قرارداد کا تسلسل ہے، جس میں انھیں غیر مسلم قرار دیا گیا۔
یہ قانون اس لیے بنا کہ ریاست نے قراردادِ مقاصد کے تحت “کلمہ” پڑھ کر ایمان کے محتسب کی ذمہ داری سنبھال لی۔
اس “کلمے” کی بنیاد اُس مذہبی فکر میں تھی،
جس نے کفر، شرک اور ارتداد پر تکفیر و سزا کا اختیار انسانوں کے ہاتھ میں دے دیا،
یوں خدا کے فیصلے فتووں سے ہوتے ہوئے عدالتوں اور اسمبلیوں کی میز پر آ گئے۔
ریاست اب صرف نظم و نسق اور جان و مال کے تحفظ تک محدود نہیں رہی،
بلکہ مذہبی شناخت مٹانے اور بنیادی حقوق سلب کرنے تک جا پہنچی ہے۔
چنانچہ عقیدے کی سرحدیں اور شعائر کی حد بندیاں
ریاستی قانون اور مذہبی قیادت کے باہمی اشتراک سے طے ہونے لگیں …
گویا ایک طرف قانون کا کوڑا، دوسری طرف فتوے کی تلوار!
یہ سب یوں ہی نہیں ہوا،
بلکہ ایک سوچے سمجھے فکری بندوبست کی پیداوار تھا،
جس کے کچھ لازمی اور ناگزیر نتائج تھے.
جو اب ظاہر ہو رہے ہیں۔
سو اب اگر کسی احمدی مسجد سے کلمے کا بورڈ ہٹایا جاتا ہے،
انہیں اذان دینے سے روکا جاتا ہے،
قربانی پر گرفتار کیا جاتا ہے،
یا موقع ملنے پر ان “زنادقہ” کو واصلِ جہنم کر دیا جاتا ہے،
تو یہ سب بھی اسی فیصلے کی منطقی توسیعات ہیں۔
لہٰذا اگر اصل بنیادوں پر سوال اٹھانا
گناہِ کبیرہ ٹھہرتا ہے،
اور اس پورے نظریاتی تشخص پر تنقید کرنا جرم بن چکا ہے،
تو یاد رکھیے:
نتائج پر کی جانے والی مذمت بھی
محض ایک رسمی ردِعمل سے زیادہ کچھ نہیں !
جس میں نہ حق کو زبان ملتی ہے،
نہ عدل کو راستہ۔
اور یوں ہر امید
آہستہ آہستہ
افسوس میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
محمد حسن الیاس

Leave a comment