سوال: جب تمام انبیا اپنی اپنی قوموں میں بھیجے گئے اور ان کی تعلیمات اور شریعت بھی ان کی قوم تک مخصوص تھی توپھر یہ کیوں نہیں کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عرب قوم کی طرف بھیجےگئے اوران کی لائی ہوئی تعلیمات اور شریعت بھی ان کی قوم کے لیےخاص تھی؟قرآن کیسے ثابت کرتا ہے کہ قیامت تک ہم اسی شریعت کے پابند ہیں؟
جواب:اصل سوال کی طرف آنے سے پہلے تین بنیادی غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے:
پہلی یہ کہ:
یہ مقدمہ اپنی ذات ہی میں غلط ہے کہ انبیا کی تعلیمات کا دائرہ محض ان کی قوموں تک محدود ہے۔ انبیا کی ہدایت کا content ہمیشہ عالمی اور آفاقی ہوتا ہے،اس کی ہدایت کی presentation مقامی تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کو جب ایک قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا ہے تو اس قوم کی ایک تاریخ ہوتی ہے، اس کی ایک زبان ہوتی ہے ،اسی طرح اس کے سماج اور کلچر میں کچھ رسوم و آداب ہوتے ہیں ،اسی پس منظر میں ان کے ہاں انحرافات کی روایت جنم لیتی ہے۔چنانچہ نبی جب بھی کسی قوم کو اپنی ہدایت پیش کرے گا تو وہ اسی مخصوص اطلاقی پس منظر میں کرے گا، لیکن جو بات وہ پیش کرے گا، اپنی واقعیت میں وہ ایک عالمی صداقت ہوگی۔
مثلاً رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے عالمی مرکز کو شرک کی غلاظت سے پاک کیا، اس غلاظت کو پروان چڑھانے والے یقیناً قریش ہی تھے، آپ نے انھیں ہی مخاطب کیا، لیکن جو بات انھیں سمجھائی کہ خدا کا شریک ٹھیرانا ایک جھوٹ ہے، یہ بات ایک عالمی صداقت ہے،اس لیے تمام انبیا کی تعلیمات مقامی نہیں ،بلکہ عالمی ہوتی ہیں۔
اسی طرح سے جو شریعت نبی لاتے ہیں، اس کا تعلق انسان اور اس کی عادات سے ہوتا ہے؛ جب تک وہ انسان اس دنیا میں اپنی انھی عادات کے ساتھ کھڑا ہے، شریعت کا ہر ہر حکم اس کے لیے relevant ہے۔
مثلاً شریعت نے وراثت میں بیٹوں کو بیٹیوں سے دگنا دینے کا حکم دیا تو اس کی وجہ ان کا بہ لحاظ منفعت بیٹیوں سے مختلف ہونا ہے، چنانچہ اگر یہ حقیقت پوری دنیا میں تبدیل نہیں ہوتی (اور نہ ہوگی) تو قانون کا یہ حکم بھی ابدی اور تمام انسانوں کے لیے ہے۔
دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ انبیا میں سے جب خدا تعالیٰ کسی کو رسول کے منصب پر فائز کرتا ہے تو پھر دنیا میں اس کی قوم پر عذاب آتا ہے۔یہ رسول کے ساتھ خدا کی معیت کا ظہور ہے جو دنیا میں ایک عدالت اور پھر اس کے تحت جزا و سزا کی صورت میں روبہ عمل ہوتا ہے۔اس لحاظ سے رسولوں کی عدالت یقیناً اپنی قوم تک محدود ہوتی ہے۔قرآن مجید میں اسی بات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰي نَبْعَثَ رَسُوْلًا. (بنی اسرائیل ۱۷: ۱۵)
’’ہم (کسی قوم کو )کبھی سزا نہیں دیتے جب تک ایک رسول نہ بھیج دیں (کہ سزا سے پہلے وہ اس پر حجت پوری کردے)۔‘‘
تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ انبیا اس ہدایت کے موجد یا بانی نہیں ہوتے ہیں ، تمام انبیا اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی دین لے کر آئے تھے۔ ارشاد ہوا ہے:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰي بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْ٘ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖ٘ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰي وَعِيْسٰ٘ي اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْ٘ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَيَهْدِيْ٘ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ.(الشوریٰ ۴۲: ۱۳)
’’اُس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اُس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی، (اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ (اپنی زندگی میں) اِس دین کو قائم رکھو اور اِس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔ تم جس چیز کی طرف اِن مشرکوں کو بلا رہے ہو (کہ یہ خدا کو ایک مانیں)، وہ اِن پر بہت شاق گزر رہی ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی طرف آنے کے لیے چن لیتا ہے، لیکن اپنی طرف آنے کی راہ وہ اُنھی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی پیدایش کے ساتھ ہی خیر و شر کا وہ ابتدائی علم عطا کیا تھا جس کی روشنی میں وہ معروف اور منکر کی تمیز بہ آسانی کرسکتا تھا ۔ قرآن مجید نے اسی ضمن میں بتایا :
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا. فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا. قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا. وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا.(الشمس ۹۱: ۷- ۱۰)
’’اورنفس گواہی دیتاہے ، اورجیسا اُسے سنوارا، پھر اُس کی نیکی اور بدی اُسے سجھا دی کہ مراد کو پہنچ گیا وہ جس نے اُس کو پاک کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُسے آلودہ کر ڈالا۔‘‘
اس ابتدائی بصیرت کے باوجود انسان کو زندگی میں جو مشکلات پیش آسکتی تھیں، وہ دو ہی تھیں:
پہلی یہ کہ اس کے ارادہ و اختیار کا سوء استعمال اس داخلی شعور کو مٹا نہ دے ۔
دوسری یہ کہ انسان اپنے شعور سے جن معاملات میں فیصلے کی صلاحیت نہیں رکھتا، ان میں کیا کرے؟
ان مشکلات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس کے شعور کی یاددہانی کے لیے اپنی جانب سے پیغمبر بھیجنے کا اہتمام کیا، خدا کے یہ نمایندے زمین پر لوگوں کو ان کی زبان میں خدا کا کلام پڑھ کر یاددہانی کراتے اور خیر و شر کی تمیز پر توجہ دلاتے ،اس کے نتیجے میں وہ لوگ جن میں نور فطرت کی ذرا بھی روشنی باقی ہوتی ہے، لپک کر اس پیغمبر کی ہدایت کو قبول کر لیتے۔
اسی طرح خدا کے یہ نمایندے دوسری مشکل بھی حل کرتے ،وہ معاملات جن میں خیر و شر کے اس فطری علم کو اطلاق میں مشکلات درپیش ہوتیں،خدا کا کلام سنا کر شریعت و قانون بھی بیان کر دیتے ۔یہ قانون ایسا نہیں ہے کہ اپنی روح میں ہر پیغمبر کے ہاں مختلف ہوتا ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ایک پیغمبر کے ہاں خدا کی بارگاہ میں پاک ہوکر حاضر ہونا شریعت تھی اور دوسرے کے ہاں نہیں تھی، بلکہ شریعت کے یہ قوانین کبھی معاشرتی حقائق، کبھی منصبی حیثیت اور کبھی تدریجی اور تربیتی مقاصد کے لیے مختلف صورتوں میں سامنے آتے ہیں:
۱۔ مثلاً اگر کسی قوم میں کوئی نظم اجتماعی نہیں ہے تو شریعت کا مخاطب ہر صورت میں فرد ہی رہے گا، یہ ابتداےانسانیت کے انبیا کی شرائع میں ہو سکتا ہے۔
۲۔ اسی طرح اگر کوئی قوم خدا کی طرف سے کسی ذمہ داری پر فائز ہے تو خدا کی جانب سے خصوصی رعایت اور سختی ،دونوں پہلو اس کے قانون میں نمایاں ہوں گے۔
۳۔ اسی طرح تدریج اور تربیت کے لیے بعض وقتی احکام بھی تمام شرائع میں اسی غرض سے دیے جاتے رہے ہیں کہ انسانوں کو اس اصل قانون کی پاس داری تک پہنچا دیا جائے۔اس کی مثال خود رسول اللہ کی زندگی میں دیے گئے بعض احکام ہیں، جیسا کہ صدقہ دے کر آپ سے ملاقات کرنا۔
اب آتے ہیں اس اصل سوال کی طرف کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی نوعیت کیا ہے؟ اور قرآن مجید اس ضمن میں کیا رہنمائی کرتا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسمٰعیل کی طرف مبعوث فرمایا اور یہ ہدایت کی:
وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ. (الشعراء ۲۶: ۲۱۴)
’’اور اپنے قریبی خاندان والوں کو ڈراؤ۔‘‘
یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ رسول اللہ ہی کا خاندان تھا جس کے پاس بیت اللہ کی تولیت تھی ۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے دوسرے موقع پر مزید واضح فرمادی:
وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَهَا.(الانعام ۶: ۹۲)
’’ یہ (اُسی کتاب کی طرح) ایک کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے، بڑی خیر و برکت والی ہے، جو کچھ اِس سے پہلے آ چکا ہے، اُس کی تصدیق کرتی ہے، (اِس لیے کہ تم اِس کے ذریعے سے لوگوں کو خوش خبری دو) اور اِس لیے کہ اُنھیں متنبہ کردو جو ام القریٰ اور اُس کے گردوپیش کے رہنے والےہیں۔‘‘
چنانچہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اللہ کے مخاطبین بنی اسمٰعیل ہی تھےاور آپ کو ان تک دعوت پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی، اور آپ انھی کے لیے عدالت بن کے آئے، لیکن جو پیغام قرآن مجید کی صورت میں آپ پہنچا رہے تھے، کیا وہ صرف بنی اسمٰعیل کے لیے تھا ؟اس کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن مجید نے رسول اللہ کی زبانی بتایا:
وَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۣ بَلَغَ.(الانعام ۶: ۱۹)
’’اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے کہ میں بھی اس کے ذریعے سے تم کو ڈراؤں اور وہ بھی جن کو یہ پہنچے۔‘‘
یعنی بنی اسمٰعیل کے علاوہ بھی جس شخص تک یہ پہنچ جائے، اس کے لیے ہدایت ہے۔
استاذ جاوید احمد غامدی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یہ وہی بات ہے جو سورۂ فرقان میں ’لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا‘ (بڑی ہی بابرکت ہے وہ ہستی جس نے اپنے بندے پر یہ فرقان اتارا ہے ،اِس لیے کہ وہ دنیا والوں کے لیے نذیر بنے) کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ قرآن روز قیامت تک ذریعۂ انذار ہے۔ علما جب اِس کی دعوت لے کر اُٹھیں تو اُنھیں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجاے اِسی کو ذریعۂ انذار بنانا چاہیے۔ خدا کی معرفت اور عقبیٰ شناسی کے لیے اِس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے جو لوگوں کو بیدار کر سکے۔‘‘ (البیان ۲/ ۲۰)
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسمٰعیل کو بھی پابند کیا کہ جو ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تک پہنچائی ہے، اسے باقی دنیا تک پہنچائیں ، اس ذمہ داری کو قرآن مجید نے بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا.(البقرہ ۲: ۱۴۳)
’’اِسی طرح ہم نے تمھیں بھی ایک درمیان کی جماعت بنا دیا ہے تاکہ تم دنیا کے سب لوگوں پر (حق کی) شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے۔‘‘
استاذ جاوید احمد غامدی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اصل میں لفظ ’وَسَط‘ استعمال ہوا ہے ۔ یہ ’ولد‘ کی طرح مذکر ، مونث ، واحد اور جمع سب کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اِس کے معنی درمیان کے ہیں اور اِس آیت میں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم بنی اسمٰعیل کے لیے آیا ہے ۔ سورۂ حج (۲۲) کی آیت ۷۸ میں ’هُوَ اجْتَبٰكُمْ‘ کے الفاظ دلیل ہیں کہ اُنھیں اللہ تعالیٰ نے دین کی اِس شہادت کے لیے اُسی طرح منتخب کیا ، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے ۔سورۂ بقرہ کی اِس آیت میں قرآن نے اِسی بنا پر اُنھیں درمیان کی ایک جماعت ’اُمَّةً وَّسَطًا‘ قرار دیا ہے ، یعنی وہ جماعت جس کے ایک طرف اللہ و رسول اور دوسری طرف دنیا کی سب اقوام تھیں اور وہ اُن پر حق کی شہادت کے لیے مامور کیے گئے ۔شہادت کے معنی گواہی کے ہیں ۔ جس طرح گواہی سے فیصلے کے لیے حجت قائم ہو جاتی ہے ، اُسی طرح حق جب اِس درجے میں واضح کر دیا جائے کہ اُس سے انحراف کی گنجایش باقی نہ رہے تو اُسے ’شہادت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا جماعت کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرما تے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا پر برپا کر دیتے ہیں ۔ اُنھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں گے تو اِس کی جزا اور انحراف کریں گے تو اِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جائے گی ۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الہٰی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔اِس کے ساتھ اُنھیں حکم دیاجاتا ہے کہ جس حق کو وہ بچشم سر دیکھ چکے ہیں، اُس کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچادیں۔ یہی شہادت ہے۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلۂ الہٰی کی بنیاد بن جاتی ہے۔‘‘ (البیان ۱/ ۱۴۲- ۱۴۳)
قرآن مجید نے اپنے اولین مخاطبین کو پابند کیا کہ اس کا یہ پیغام ہر جگہ پہنچائیں تاکہ عالمی سطح پرخدا کا پیغام پھیل جائے اور حق و باطل کا فیصلہ ہمیشہ تک کے لیے ہو جائے ،انھوں نے اس دعوت کا آغاز اس عہد کے یہودیوں اور نصاریٰ تک یہ پیغام پہنچا کر کیا۔ قرآن مجید کی ابتدائی سورتیں اسی دعوت کی سرگذشت ہیں۔یہ سلسلہ جاری رہا اور اکناف عالم میں یہ پیغام پھیل گیا۔
اب جیسے ہی بنی اسمٰعیل کی یہ دعوت قرآن کی صورت میں ہم غیر بنی اسمٰعیل تک پہنچتی ہے اور ہمیں یہ یقین ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ ہی کی حقیقی ہدایت ہے، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نے قرآن و سنت کی صورت میں آگے پہنچایا ہے تو ہم بھی اس ہدایت کے لیے انھی دو پہلوؤں سے محتاج تھے:ایک یاددہانی اور دوسرے قانون۔ چنانچہ اب ہمارے لیے بھی اس پیغمبر پر اور اس ہدایت پر ایمان لانا ضروری ہوجاتا ہے، اس لیے کہ اس رسول پر ایمان لانا، دراصل ہمارے خدا پر ایمان کی نشانی ہےکہ ہم خدا اور اس کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغام کو مان رہے ہیں،اور جیسے ہی ہم اس پر ایمان لاتے ہیں ،تذکیر اور شریعت کی وہ ساری ہدایات جو بنی اسمٰعیل سے متعلق تھیں، ہم سے بھی متعلق ہوجاتی ہیں،اس لیے کہ ان کا تعلق اس اصل پیغام سے ہے جس کو ہم نے قبول کر لیا ہے۔لہٰذا اب نماز ویسے ہی ہم پر لازم ہے، جیسے بنی اسمٰعیل پر تھی ،کیونکہ ہمیں بھی اللہ سے تعلق کے اظہار کی ویسے ہی ضرورت ہے ، جیسے بنی اسمٰعیل کو تھی۔ہمیں ویسے ہی خدا کے قانون ، یعنی شریعت کا پابند کیا گیا ہے، جیسے بنی اسمٰعیل کو کیا گیا تھا۔
اس ہدایت میں، البتہ چند ایسے احکامات یقیناً ہم سے متعلق نہیں ہوتے جو رسول کی عدالت اور بنی اسمٰعیل کو ان کی خاص حیثیت میں دیے گئے تھے۔اس نوعیت کے دینی احکام کی تفصیل اور ان کی تخصیص کے وجوہ خود قرآن مجید نے بیان کردیے ہیں۔لہٰذا ہمارے لیے وہ ایک سچی حقیقت ہیں ، جو اس پیغمبر کی صداقت کی دلیل ہیں۔ ہمارے ایمان کی بنیاد ہیں، لیکن ہم ان احکام کے جس طرح مخاطب نہیں، اسی طرح ان پر عمل کرنے کے پابند بھی نہیں ہیں ۔مثلاً رسول کے اتمام حجت کے بعد نہ ماننے والوں کا قتال۔
(جون 2020ء)