Skip to content Skip to footer

اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں

“اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں…”
یہ جملہ اکثر سادگی سے ادا ہوتا ہے۔ سننے والا اسے شاید خاموشی، بے بسی یا بے نیازی سمجھے
لیکن جو شخص یہ کہہ رہا ہوتا ہے، وہ درحقیقت ایک بہت بڑا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے۔
یہ اعلان ہوتا ہے کہ وہ اب انسانوں کے بنائے نظام سے مایوس ہو چکا ہے۔
وہ جان چکا ہے کہ اس دنیا میں شاید وہ اپنی مظلومیت کبھی ثابت نہ کر سکے۔
نہ کسی فورم پر، نہ کسی عدالت میں، نہ کسی ضمیر کے آگے۔
تو وہ خاموشی اختیار کرتا ہے، مگر یہ خاموشی احتجاج بن جاتی ہے۔
وہ اپنا مقدمہ دنیوی نظام سے اٹھا کر آسمانی دربار میں رکھ دیتا ہے۔
بس اتنا کہتا ہے: “میں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔”
یہ صرف الفاظ نہیں ہوتے۔۔۔
یہ ایک ایسی آہ ہوتی ہے جو زمین سے اٹھ کر عرش تک جاتی ہے،
اور پھر پلٹتی ہے تو انصاف، بدلہ، یا نشانِ عبرت بن کر لوٹتی ہے۔
دنیا میں ہم سب سے جھگڑے ہوتے ہیں، غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں۔
کبھی انجانے میں ہم کسی کا دل دکھا دیتے ہیں، کبھی جانتے بوجھتے زیادتی کر بیٹھتے ہیں۔
لیکن جب کوئی ظلم سہہ کر، کچھ کہے بغیر، صرف یہی جملہ بولے کہ “میں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں”
تو سمجھ لیجیے اب وہ آپ سے نہیں، اللہ سے مخاطب ہے۔
اور جب کوئی اپنا مقدمہ اُس ذات کے حضور پیش کر دے
تو وہاں کوئی حجت نہیں چلتی،
کوئی رشتہ نہیں بچاتا،
اور کوئی بہانہ قبول نہیں ہوتا۔
یہ خاموشی نہیں ہوتی، یہ ایک پکار ہوتی ہے۔جو خدا کے دربار میں سیدھی پہنچتی ہے۔
اس لیے اگر کبھی زندگی میں کوئی شخص آپ سے یہ کہے
“میں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں”
تو رک جائیے، اس کے پاوں پکڑیں۔منت سماجت کرلیں اور معاملہ دنیا میں ہی صاف کر لیجیے۔
کیونکہ اگر یہ بات آخرت تک چلی گئی،
تو وہاں سب کچھ کھل جائے گا اور پھر نہ وقت ہوگا، نہ اختیار، نہ مفر۔
رسول اللہ نے ایک موقع پر یہی توجہ دلائی،فرمایا:
“اتَّقِ دعوةَ المظلومِ، فإنَّهُ ليسَ بينها وبينَ اللهِ حجابٌ”
“مظلوم کی بددعا سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
(صحیح بخاری: 2448)
محمد حسن الیاس۔

Leave a comment