حجیت حدیث سیریز:01
(محمد حسن الیاس)
“حدیث کے ذریعے قرآن کا نسخ”
حج کا مہینا دین ابراہیمی کی روایت میں ہمیشہ سے متعین رہا ہے۔ قدیم عہد میں سفر اس طرح آسان نہیں ہوا کرتے تھے، اس لیے عازمین حج طویل مسافت کو معاشی ضروریات کے پیش نظر تجارتی قافلوں کی صورت میں طے کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ خدا کے دین میں ذوالقعدہ، ذو الحجہ اور محرم میں حج کے لیے اور رجب میں عمرہ کی غرض سے جنگ و جدال سختی سے ممنوع رہی تاکہ لوگ بغیر کسی تردد کے امن کے ساتھ حرم کا سفر طے کرلیں اور خدا کے حضور میں پیش ہو کر آسانی سے حج و عمرہ ادا کرسکیں۔ ان مہینوں کو ’الْاَشْهُرُ الْحُرُم‘ کہا جاتا ہے۔
عربوں نے خدا کی اس ہدایت میں دو بدعات پیدا کر لی تھیں:
پہلی یہ کہ وہ کسی کے خلاف لڑنا چاہتے تو حرام مہینے کی
جگہ حلال مہینا رکھ کر اس لڑائی کو جائز کر لیتے۔
دوسری یہ کہ تجارتی مقاصد کے لیے قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اُس میں کبیسہ کا ایک مہینا بڑھا دیتے تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے۔
قرآن مجید نے حرام مہینوں میں اس طرح کے گھپلوں کو صریح نافرمانی قرار دیا، اہل ایمان کو تنبیہ کی کہ وہ ان مہینوں کی اس حیثیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور کبھی جنگی اقدام میں پہل نہ کریں۔ البتہ اگر ان مہینوں میں مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی جائے تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟ قرآن مجید نے اس بات کی بھی وضاحت کردی کہ اس طرح کی صورت حال میں اہل ایمان بھی لڑنے کا حق رکھتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے:
’’ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہے اور (اِسی طرح) دوسری حرمتوں کے بدلے ہیں ۔ لہٰذا جو تم پر زیادتی کریں، اُن کو اپنے اوپر اِس زیادتی کے برابر ہی جواب دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ (البقرہ ۲: ۱۹۴)
ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید نے اس بات کو مزید توضیح کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
’’وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ حرام مہینے میں قتال کا کیا حکم ہے؟ کہہ دو کہ اِس میں قتال بڑی ہی سنگین بات ہے، لیکن اللہ کی راہ سے روکنا اور اُس کو نہ ماننا اور بیت الحرام کا راستہ لوگوں پر بند کرنا اور اُس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اِس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔‘‘ (البقرہ ۲: ۲۱۷)
اللہ تعالیٰ نے رسول کی بعثت کے بعد جانتے بوجھتے انکار کرنے والوں کو دنیا میں عذاب دینے کے لیے بھی ان مہینوں کی حرمت کو ملحوظ رکھا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’(بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو۔‘‘ (التوبہ ۹: ۵)
اس آیت کی وضاحت میں صاحب ’’البیان‘‘ لکھتے ہیں:
’’اِس سے وہی مہینے مراد ہیں جنھیں اصطلاح میں “اشہر حرم کہا جاتا ہے۔ یہ تعبیر اِن مہینوں کے لیے بطور اسم و علم استعمال ہوتی ہے، اِس لیے عربیت کی رو سے کوئی اور مہینے مراد نہیں لیے جا سکتے۔ حج اکبر کے موقع پر جس اعلان کے لیے کہا گیا ہے، اُس کے بعد ۲۰ دن ذوالحجہ اور ۳۰ محرم کے باقی ہوں گے۔ یہ اُنھی کے بارے میں فرمایا ہے کہ اِن دنوں میں چونکہ جنگ و جدال ممنوع ہے، اِس لیے یہ جب گزر جائیں تو اِس اعلان کے نتیجے میں جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہو، اُن کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے، اِس سے پہلے کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ ذوالحجہ اور محرم کے پچاس دنوں کے لیے یہ تعبیر بالکل اُسی طرح اختیار کی گئی ہے، جس طرح ہم اپنی زبان میں بعض اوقات نومبر یا دسمبر کے مہینے میں کہتے ہیں کہ یہ سال گزر جائے تو فلاں کام کیا جائے گا۔‘‘ (۲/۳۲۴)
ان تمام مقامات کو دیکھنے کے بعد بغیر کسی تردد کے کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے ان مہینوں کی حرمت کو ہمیشہ قائم رکھا ہے اور اہل ایمان پر بھی لازم کیا ہے کہ وہ ان کی حرمت کو کبھی پامال نہ کریں اور ’الْاَشْهُرُ الْحُرُم‘ کی اصطلاح بھی یہی بتاتی ہے کہ ان مہینوں کا متعین تصور پہلے سے موجود تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن مجید اس اصطلاح کو کبھی استعمال نہ کرتا، بلکہ پہلے بتاتا کہ اس سے مراد کیا ہے۔
قرآن مجید میں اس حکم کی اس درجے میں وضاحت کے باوجود چونکہ ہماری روائتی تعبیر حدیث کے ذریعے قرآن کی صریح ہدایت تک کو نسخ کرنے کی قائل ہے لہٰذا اہل علم قرآن کی اس ہدایت کو بھی ’’منسوخ‘‘ مانتے ہیں۔
مثلاً امام سرخسی کا کہنا ہے کہ قرآن مجید اگرچہ یہ حکم دے رہا ہے کہ حرام مہینوں میں جنگی اقدام نہ کیا جائے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے قرآن مجید کے اس حکم کو منسوخ کر دیا ہے۔ امام صاحب نے ایک حدیث کو اپنا بناے استدلال بنایا ہے۔ یہ روایت انھوں نے امام محمد کی ’’السیر الصغیر‘‘ سے لی ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم في المحرم لمستهل الشهر؛ وأقام عليها أربعين يومًا؛ وفتحها، يعني الطائف، في صفر.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب طائف کی جنگ شروع کی تو اس وقت محرم کی ابتدا تھی۔ آپ چالیس دنوں تک وہاں رہے اور پھر آپ نے طائف کو، صفر میں فتح کرلیا۔‘‘
امام صاحب کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اقدام خود بتا رہا ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی جاسکتی ہے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے حکم کو اپنے عمل سے منسوخ کر دیا ہے، اور رسول اللہ چونکہ دین کے معاملے میں خود سے کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، اس لیے امام صاحب کے نزدیک یہ حرمت خود اللہ تعالیٰ نے ہی رسول اللہ کے اس عمل کے ذریعے سے ختم کر دی ہے۔
ہمارے نزدیک امام صاحب کا یہ استدلال درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید پوری قطعیت سے آخری وقت تک اس بات کو موضوع بنا رہا ہے اور باربار واضح کر رہا ہے کہ ان مہینوں کی حرمت قائم رہنی چاہیے تو سوچنا اس پہلو پر چاہیے کہ اس قدر تنبیہ کے باوجود ایک روایت رسول اللہ کا ایسا عمل کیوں بیان کررہی ہے جو بظاہر قرآن مجید کے صریح حکم کے خلاف ہے۔ غور اس پہلو سے بھی ہونا چاہیے کہ حرمت والے مہینوں کے بارے جو قانون اور اس میں جو استثنا قرآن مجید میں بیان ہوا ہے تو آیا رسول اللہ کا یہ عمل اس سے متعلق تو نہیں ہے؟ یعنی غور اصلاً اس روایت پر ہونا چاہیے کہ کیوں ایک روایت کی بنیاد پر ہم اللہ تعالیٰ کے کلام سے مختلف جگہ پر کھڑے ہو جائیں۔ خدا کے کلام میں تنسیخ کا حق اگر کسی کو ہے تو وہ صرف خدا ہی کو ہے، لہٰذا اگر ان مہینوں کی حرمت کی منسوخی پر کسی چیز کو بناے استدلال بنایا جا سکتا تو وہ صرف اور صرف خدا ہی کے کلام میں ہو سکتی ہے۔ اس کلام کی محکم ہدایت کو کسی محض روایت کی بنیاد پر رد نہیں کیا جاسکتا۔ رد اگر ہوگی تو لازماً وہ بات ہوگی جو قرآن مجید کے خلاف پیش کی جا رہی ہے۔
اس کے بعد ہم اس روایت پر آتے ہیں جو اصلاً امام محمد نے پیش کی تھی اور جس کی بنیاد پر امام سرخسی نے قرآن مجید کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے۔ ’’السیر الصغیر‘‘ میں یہ روایت پانچ راویوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ وہ راوی یہ ہیں:
’مُحَمَّد عَن أبي يُوسُف عَن الْحسن بن عمَارَة عَن الحكم عَن مقسم عَن ابْن عَبَّاس‘۔
ان میں آخری راوی امام محمد خود ہیں۔ امام محمد کو حدیث کے راوی کی حیثیت سے جرح و تعدیل کے علما کس مقام پر رکھتے ہیں، یہ حقیقت شاید بعض عقیدت مندوں کے لیے باعث تکلیف ہو، لہٰذا اس سے گریز کر کے ہم حسن بن عمارہ پر آجاتے ہیں۔ ابن حجر علیہ الرحمۃ کے نزدیک یہ صاحب ’’متروک‘‘ ہیں اور امام ذہبی ان کا ذکر ’’ضعیف احباب‘‘ میں کرتے ہیں۔
اگرچہ اس روایت کی عمارت بنیاد ہی میں مخدوش تھی، لیکن حسن بن عمارہ کے آجانے کے بعد یہ روایت کسی درجہ میں بھی قابل التفات نہیں رہی۔ لہٰذا اسے کسی صورت میں رسول اللہ سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سر تا سر ایک ضعیف روایت ہے جسے ’’سنت مشہورہ‘‘ قرار دے کر اس کے ذریعے سے کلام اللہ کو منسوخ کیا جا رہا ہے۔
اس ضعیف روایت کے برخلاف صحاح ہی میں رسول اللہ کے طائف کے غزوہ کی ’’صحیح‘‘ روایات موجود ہیں جو بتا رہی ہیں کہ یہ غزوہ حرمت والے مہینوں میں پیش ہی نہیں آیا۔ امام بخاری نے طائف کے غزوہ کا باب ان الفاظ میں باندھا ہے:
’باب غزوة الطائف في شوال‘، یعنی غزوۂ طائف کا باب جو کہ شوال میں پیش آیا۔
اس غزوہ کا پس منظر اور واقعاتی ترتیب کیا تھی؟ حدیث اور تاریخ کی کتب میں اس کی بھی تفصیل درج ہے کہ یہ غزوہ دراصل غزوۂ حنین ہی کا تسلسل تھا۔ ہوازن و ثقیف کے شکست خوردہ لوگوں نے اپنے سربراہ مالک بن عوف نصری کے ساتھ بھاگ کر جب طائف میں پناہ لے لی اور وہاں قلعہ بند ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین سے فارغ ہوکر اسی ماہ شوال میں طائف کا قصد کیا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مکہ سن ۸ ہجری رمضان میں فتح ہوتا ہے، اسی سال اگلے ہی ماہ شوال میں حنین کا معرکہ پیش آجاتا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سن ۸ ہجری کے آغاز میں محرم کے وقت فتح مکہ سے پہلے ہوازن کے سرداروں سے طائف کا وہ معرکہ پیش آگیا ہو جس میں آپ نے چالیس دن محاصرہ کیے رکھا اور مشرکین مکہ بےخبر سوتے رہے۔ اور پھر اسی سال فتح مکہ کے بعد دوبارہ انھی لوگوں سے حنین کا معرکہ بھی پیش آگیا۔ اس بات کا کوئی امکان ہی نہیں کہ یہ معرکہ محرم سن ۸ ہجری کو پیش آیا تھا۔ اور اگر روایت ۹ ہجری کے محرم کے آغاز کا ذکر کر رہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شوال میں حنین کی فتح کے بعد اس کے پاس ہی موجود طائف میں قلعہ بند حنین کے بھگوڑوں کو اگلے سال محرم تک امن سے رہنے دیا گیا اور اگلے سال اچانک محرم میں آکر چالیس دن کا محاصرہ کر کے پکڑ لیا گیا؟ علم و عقل ان حقائق کو کسی صورت تسلیم نہیں کر سکتے۔ لہٰذا تاریخی لحاظ سے اس میں دو آرا نہیں ہیں کہ غزوۂ طائف شوال ہی میں پیش آیا تھا۔
اِس بات کو مزید محکم خود بخاری ہی نے کر دیا ہے اور موسیٰ بن عقبہ سے روایت کیا کہ یہ غزوہ شوال سن ۸ ہجری میں پیش آیا۔ یہاں کسی کو یہ مغالطہ نہ ہو کہ جس غزوۂ طائف کا ہم ذکر کر رہے ہیں، وہ کوئی اور ہے اور امام محمد کی بیان کردہ روایت کسی اور غزوہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے، تو یہ غلط فہمی بھی ذخیرۂ حدیث میں موجود لاتعداد روایات نے دور کردی ہے، اِس صراحت کے ساتھ کہ یہی وہ غزوۂ طائف تھا کہ جب رسول اللہ نے کئی روز تک مسلسل محاصرہ کیے رکھا۔
اس معرکے پر غور کرتے ہوئے ایک اور پہلو بھی پیش نظر رہے، اگر ہمیں تاریخی واقعات سے یہی خبر پہنچتی کہ غزوۂ طائف حرمت والے مہینوں ہی میں ہوا تھا تب بھی یہ قرآن مجید کے حکم کے عین مطابق ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معرکہ اس قتال کے تسلسل میں تھا جس کا آغاز حنین میں ہوا تھا، اور قرآن مجید نے پہلے ہی اس امکان کی وضاحت کر دی تھی کہ اس صورت حال میں حرمت کے مہینوں میں بھی لڑنا اہل ایمان کے لیے پوری طرح جائز تھا۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ فکرِ فراہی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ قرآن ہی دین کا قطعی میزان اور آخری حجت ہے؛ حدیث یا کوئی بھی روایت اس کے کسی محکم حکم کو منسوخ نہیں کرسکتی۔ قرآن کی ہدایت اپنی اتھارٹی میں کامل و مستقل ہے اور اس کے باہر کوئی قول، روایت یا رائے اس میں ترمیم یا تحدید کا حق نہیں رکھتی۔ دین میں ردّ و قبول کا معیار ہمیشہ قرآن کی آیاتِ بینات ہیں اور باقی تمام مصادر اسی کے تابع ہیں۔ روایتی علم نے حجیتِ حدیث کے نام پر یہی بنیادی غلطی کی کہ تعارض کی ہر صورت میں قرآن کو مؤخر اور روایت کو مقدم کر دیا، اور اس کے نتیجے میں خود قرآن کی حیثیت مجروح ہوئی، یعنی کائنات کا پروردگار ایک حکم دے رہا ہے لیکن اس حکم کی عملاً کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک اصولی طور پر فیصلہ ہمیشہ قرآن کے حق میں ہونا چاہیے۔ قرآن کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہی صحیح روایات اسی کی تائید میں کھڑی ہوتی ہیں، یوں حدیث قرآن کی اصل کی فرع، اس کے متن کی شرح اور اس کے اجمال کی تفصیل بن کر واجب الاتباع ہو جاتی ہے۔
محمد حسن الیاس۔