محمد حسن الیاس
انسان کو آزمایش میں کیوں ڈالا گیا ؟
یہ دنیا آزمایش کے اصول پر بنائی گئی ہے ۔ اِس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے اِس کے جز جز میں تنوع کا اہتمام کیا ہے اور پھر اُس تنوع میں عظیم الشان ہم آہنگی کو وجود بخشا ہے۔ ہر چیز ایک دوسرے سے مختلف ہے، مگر موافقت کے گونا گوں پہلو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ پوری کائنات اختلاف میں اتفاق اور اتفاق میں اختلاف کی معجزہ آرائی ہے۔چنانچہ جب ہم اپنے خارج پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ کائنات اختلافات کی رنگا رنگی اورتنو عات کے عجائبات کا نگارخانہ ہے۔ اس کا اختلاف حسن و جمال شاہ کار ہے۔اس کا افتراق نظم و ترتیب کا معجزہ ہے۔ یہ اختلاف و افتراق صرف کائنات ہی کاعنوان نہیں، بلکہ وجود انسانی کا بھی سرنامہ ہے۔ہمارا چہرہ مہرہ، رنگ روپ دوسروں سے مختلف ہے۔ آواز و آہنگ، چال ڈھال، وضع قطع میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اِس ظاہری رنگا رنگی کے ساتھ داخل میں بھی تفاوت کی ایک دنیا آباد ہے۔ اذواق و رجحانات، عادات و اطوار، مزاج و طبائع میں بھی نوع بہ نوع امتیازات اظہر من الشمس ہیں۔ یہ سب آزمایش کے اسباب و وسائل ہیں۔آزمایش یہ ہے کہ ہر شخص کو علم و عمل میں پا کیزہ رہنے کا امتحان درپیش ہے۔ اس امتحان کا نتیجہ آخرت میں نکلنا ہے اور دنیا کی کار کردگی کے موافق جزا اور سزا ملنی ہے ۔
یہ مذہب کا مقدمہ ہے۔ اِس پر ہر ذی شعور کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس کار کردگی پر آخرت میں انسان نے جزا و سزا پانی ہے، اس کے مواقع اس دنیا میں سب کے لیے یکساں کیوں نہیں ہیں؟ آزمایش اگر علم و عمل کا امتحان ہے تو علم اور عمل، دونوں کے معاملے میں سب انسانوں کو یکساں صلاحیتیں، یکساں حالات اور یکساں مواقع کیوں نہیں دیے گئے؟ اس پر مستزاد یہ واقعہ ہے کہ اللہ نے بعض انسانوں کو نبوت کے منصب پر فائز کر کے ایک طرف ان پر لامکاں کے علوم کی راہیں کھول دی ہیں اور دوسری طرف ان کی شیاطین سے حفاظت فرما کر اُن کے عمل کو محفوظ کر دیا ہے۔
علم و عمل پر جزا و سزا کی اس خدائی اسکیم پر جب اہل خرد نظر ڈالتے ہیں تو وہ مذہب بیزاری کا شکار ہو جاتے ہیں اور جب اہل طریقت کو یہ مسئلہ پیش آتا ہے تو مراتب کے حصول کی متبادل دنیائیں تشکیل دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس اضطراب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہل عقل کائنات کو خدا کے منصب پر فائز کر دیتے ہیں اور اُس کے انداز و اطوار کو اُس میں رونما ہونے والے اتفاقات کی کرشمہ سازی قرار دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں ۔اہل طریقت کمالاتِ نبوت کو ہدف بناتے ہیں اور مخاطبۂ الہٰی کے شوق میں مشقوں، چلوں اور ریاضتوں کے ذریعے سے ماوراے افلاک جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس اضطراب کا جواب ہمارے اہل مذہب کی جانب سے یہ دیا جاتا ہے کہ بے شک انسانوں کے لیے کارکردگی کے مواقع مختلف ہیں، مگر اصول یہ ہے کہ جس کی آزمایش سخت ہے، اس کا انعام بھی زیادہ ہے اورجس کی آزمایش کم ہے، اس کی جزا بھی کم ہے۔ اس کی سادہ مثال یہ دی جاتی ہے کہ پیغمبر کی موجودگی کی وجہ سے اس کے نہ ماننے کی سزا اگر سخت ہے، تو ماننے کے نتیجے میں صحابی کا مرتبہ بھی تو ملتا ہے۔رہا یہ سوال کہ دیگر زمانے کے لوگوں کو یہ موقع کیوں نہیں فراہم کیا کہ وہ بڑے انعام کے حصول کے لیے بڑا خطرہ مول لیتے؟ تواس کا جواب یہ دیا جاتاہےکہ دنیا میں مواقع کی تقسیم اورپھر اس حساب سے جزا اور سزا کا حصول انسان کا خود اختیار کردہ ہے، لہٰذا انسان کو اس پر اعتراض کا حق نہیں۔ انسانوں نے خود اپنے لیے یہ امتحان کے مواقع تجویز کیے ہیں اور یہ بات قرآن اس طرح واضح کرتا ہے کہ انسان نے خود آگے بڑھ کراس امانت کا بوجھ اٹھایا، بلکہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ہر انسان اس وقت انفرادی طور پر موجود تھا، اس لیے بظاہر اس بات میں کوئی مانع نہیں کہ ہر انسان کو یہ اختیار بھی دیا جاتا کہ وہ آزمایش کا درجہ بھی خود چن لے۔
ہمارے نزدیک یہ جواب تسلی بخش نہیں ہے۔ اللہ کی کتاب سے رجوع کیا جائے تو یہ جواب ملتا ہے کہ زمین کا سب ساز و سامان اِسی امتحان کے لیے مہیا کیا گیا ہے۔ استاذِ محترم جناب جاوید احمد غامدی کے الفاظ میں ’’یہ وسیلۂ امتحان ہے جس کے درمیان انسان کو رکھ کر اللہ تعالیٰ یہ دیکھ رہا ہے کہ اِس کے ذریعے سے وہ اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرتا اور اِس طرح آخرت کی فوزو فلاح سے ہم کنار ہوتا ہے یا اِس کی دل فریبیوں میں گم ہو کر اپنی راہ کھوٹی کر لیتا ہے۔‘‘[1]
سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَی الۡاَرۡضِ زِیۡنَۃً لَّہَا لِنَبۡلُوَہُمۡ اَیُّہُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا. (18 :7) | ’’زمین پر جو کچھ ہے، اُس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے، اِس لیے کہ ہم لوگوں کا امتحان کریں کہ اُن میں کون اچھا عمل کرنے والا ہے۔‘‘ |
مولانا امین احسن اصلاحی اِس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’…فرمایا کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اس میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کون اپنی عقل و تمیز سے کام لے کر آخرت کا طالب بنتا ہے اور کون اپنی خواہشوں کے پیچھے لگ کر اسی دنیا کا پرستار بن کر رہ جاتا ہے۔ اس امتحان کے تقاضے سے ہم نے اس دنیا کے چہرے پر حسن و زیبائی کا ایک پرفریب غازہ مل دیا ہے۔ اس کے مال و اولاد، اس کے کھیتوں کھلیانوں، اس کے باغوں اور چمنوں، اس کی کاروں اور کوٹھیوں، اس کے محلوں اور ایوانوں، اس کی صدارتوں اور وزارتوں میں بڑی کشش اور دل فریبی ہے۔ اس کی لذتیں نقد اور عاجل اور اس کی تلخیاں پس پردہ ہیں۔ اس کے مقابل میں آخرت کی تمام کامرانیاں نسیہ ہیں اور اس کے طالبوں کو اس کی خاطر بے شمار جانکاہ مصیبتیں نقد نقد اسی دنیا میں جھیلنی پڑتی ہیں۔ یہ امتحان ایک سخت امتحان ہے۔ اس میں پورا اترنا ہر بوالہوس کا کام نہیں ہے۔ اس میں پورے وہی اتریں گے جن کی بصیرت اتنی گہری ہو کہ خواہ یہ دنیا ان کے سامنے کتنی ہی عشوہ گری کرے، لیکن وہ اس عجوزۂ ہزار داماد کو اس کے ہر بھیس میں تاڑ جائیں اور کبھی اس کے عشق میں پھنس کر آخرت کے ابدی انعام کو قربان کرنے پر تیار نہ ہوں۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے اپنی عقل و دل کی آنکھیں اندھی کر لی ہیں اور اپنی خواہشوں کے پرستار بن کے رہ گئے ہیں وہ اس نقد کو آخرت کے نسیہ کے لیے قربان کرنے پر تیار نہیں ہو سکتے اگرچہ اس کے حق ہونے پر اس کائنات کا ذرہ ذرہ گواہ ہے۔‘‘
(تدبر قرآن 4/558)
(اکتوبر 2023ء)
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ میزان 114۔