Skip to content Skip to footer

تاویل واحد کی تغلیط

(دو روایتوں سے  استدلال کا جائزہ)

ایک فاضل صاحب علم نے کچھ عرصہ قبلاِس موضوع پر قلم اٹھایا تھا کہ قرآن مجید قطعی الدلالت نہیں ہے۔اُن کے مطابق نظم کی رعایت سے سمجھے ہوئے قرآن مجیدکے متعین مفاہیم کو بہ یک وقت،نظم کی رعایت کے بغیرکسی دوسرےمفہوم میں استعمال کیے جانے کے نظائر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی موجود تھے۔ چنانچہ مدرسۂ فراہی کا یہ اصرار کہ قرآن مجید کی آیات صرف’’ایک‘‘ متعین تاویل رکھتی ہیں،جنھیں اُس کے الفاظ،جملے کی ساخت اور کلام کا نظم طے کرے گا،درست نہیں اور اِن آیات کو سلسلۂ کلام سے علیحدہ کرکے متعدد تاویلات اخذ کیے جانے کی  تصویب خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے فرما دی ہے۔وہ لکھتے ہیں:

’’نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ آیات کی دلالتوں کو مدنظر رکھتے تھے، نیز یہ کہ اِس میں وہ نظم اور سیاق سے ہٹ کر بھی مرادات کا خیال رکھتے تھے۔ اِس سے فقہا کے اِن استنباطات کی شرعی اصل بھی معلوم ہو جاتی ہے جو قرآن کی تفسیر میں نظمِ قرآن کے ’’اصل الاصول‘‘ ہونے کے تصور کے بظاہر معارض ہے ۔اِس مسئلے کا تعلق اصولِ فقہ کی بحث اشارۃ النص سے ہے اور نبی کریم ﷺ کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اشارۃ النص سے مرادات کا استنباط کیا ہے۔ اِس سے فقہا کے اُن استنباطات کا محل بھی واضح ہو جاتا ہے جو مثلاً انھوں نے ’لایمسه الاالمطهرون‘ کی آیت سے مس مصحف کے مسئلے پر دلیل کے طور پر استعمال کیے ہیں۔‘‘

فاضل محقق کے مطابق نصوص کی متعدد تاویلات اورنظم کی رعایت کے بغیر اِن سے مدعا اخذ کرنےکی جو روایت ہمارے فقہا کے ہاں نظر آتی ہے،اُس کی فکری بنیاد بھی دراصل رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی طرز عمل میں موجود تھی۔

اِس موقف کو قبول کرنے سے قرآن مجید کی حاکمیت پر کیا سوالات پیدا ہوتے ہیں اور اِس ضمن میں مدرسۂ فراہی کے کیا دلائل ہیں، اِس بحث سے قطع نظر اِس مضمون میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےمنسوب صرف اُن دو روایات کا جائزہ لیں گے جو اِس مقدمے کی تائید میں پیش کی گئی ہیں ۔اِس بحث میں پہلی مثال اُس واقعے کی ہے جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ لیل (٩٢)کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور قصداً بعض الفاظ حذف کردیے ۔فاضل محقق کے نزدیک اِس سےآپ کا مقصود، قرآن مجید میں زیر بحث مفہوم سے مختلف مدعااخذکرنا تھا۔یہ روایت اور اُس سے یہ نتیجہ اصلاً شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں بیان کیا ہے،فاصل محقق اُنھی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کی آیت: ’فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰي وَاتَّقٰي ‘ کا جو نظم ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی اعمالِ حسنہ کرے گا، ہم اسے جنت کی راہ دکھائیں گے اور جو اِس کے خلاف کرے گا، اُسے جہنم کی راہ دکھائیں گے۔لیکن نبی کریم ﷺ‎ نے اِس آیتِ کریمہ کو ایک موقع پر مسئلۂ تقدیر کی وضاحت کے لیے تلاوت فرمایا۔‘‘

زیر بحث  روایت کامکمل متن کچھ یوں ہے:

عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللہِ صلى الله عليه وسلم ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: ’’مَا مِنْكُمْ مِنْ نَفْسٍ إِلاَّ وَقَدْ عُلِمَ مَنْزِلُهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ‘‘‏.‏ قَالُوا: يَا رَسُوْلَ اللہِ، فَلِمَ نَعْمَلُ، أَفَلاَ نَتَّكِلُ؟ قَالَ: ’’لاَ‏، اعْمَلُوْا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ‘‘‏.‏ ثُمَّ قَرَأَ: (فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰي وَاتَّقٰي وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰي فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْيُسْرٰي وَاَمَّا مَنْۣ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰي وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰي فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰي).(مسلم،رقم ۱۸۴۴)                       

’’‎علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے کے انتظار میں بیٹھے تھے، (آپ کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی) جس سے آپ زمین کو کرید رہے تھے، آپ نے کچھ توقف کے بعد سر اٹھا یا اور فرمایا: تم میں سے ایسا  کوئی بھی شخص نہیں جس کا ٹھکانا (اللہ کو)معلوم نہ ہو گیا ہو، خواہ جنت ہو یا جہنم ۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا :یا رسول اللہ، پھر ہم عمل کیوں کریں؟کیا ہم اِسی پر بھروسا نہ کرلیں؟اِس پر آپ نے فرمایا : (خدا کا علم تمھارے عمل پر اثرانداز نہیں ہوتا، اس لیے)عمل کرتے رہو، کیونکہ ہر ایک کے لیے وہی اعمال آسان کیے جائیں گے جن کے لیے اُسے پیدا کیا گیا ہوگا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: ‎’’پھر جس نے (راہ خدا میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی۔‎اور اچھے انجام کو سچ مانا،‎اُسے ہم سہج سہج راحت میں لے جائیں گے‎اور جس نے بخل کیا اور بے پروائی برتی‎اور اچھے انجام کو جھٹلایا،‎اُسے ہم سہج سہج سختی میں پہنچا دیں گے‘‘۔‘‘

یہ روایت، کل ۲۰ صحابہ سے حدیث کے تقریباً تمام اہم مصادر میں نقل ہوئی ہے اور اِس کے تمام ۳۲۰ طرق کے استقصا  کے بعد یہ بات بھی اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ سنداً یہ ایک ’’صحیح‘‘ روایت ہے۔

فاضل محقق کے مطابق اِس روایت سے شاہ صاحب علیہ الرحمہ نےجو بات سمجھی ہے، اُسے تین نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔ قرآن مجید کی زیر بحث آیات کا مفہوم قرآن مجید کے نظم کی رعایت سے سمجھا جائےتووہ محض اچھے اعمال کی بنیاد پر جنت کی بشارت ہے۔

۲۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن آیات سے مسئلۂ تقدیر کو حل فرمایا ،جو اِن آیات میں بظاہر زیربحث نہیں ہے۔

۳۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل قرآن مجید کی آیات کو سیاق کلام کی رعایت کے بغیر اور الفاظ کو قصدا ًحذف کرکے ایک دوسری تاویل اخذ کرنے پر دلالت کرتا ہے۔

‎ ہماری راے میں فاضل محقق نے شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی بیان کردہ روایت سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے، وہ مزید غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے ۔ 

اِس روایت کے تمام طرق پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات مسئلۂ تقدیرکے حوالے سے شروع ہی نہیں فرمائی ، بلکہ ایک جنازے کے موقع پر آپ نے انسان کے اخروی انجام کے حوالے سے خدا تعالیٰ کےعلم کی وسعت کو بیان کرنا چاہا ،چنانچہ آپ نے فرمایا:’’تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانا، خواہ جنت ہو یا جہنم ، صرف اللہ کے علم میں موجود اور متعین ہے‘‘، یعنی انسانوں کو یہ طے کرنے کا حق نہیں ہے کہ کون جنت میں جائے گا، کون جہنم میں،لہٰذا کسی مسلمان کو اِس بارے میں کوئی  بات کہنے سے بچنا چاہیے ،یہ صرف اللہ کے علم میں ہے،اُس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کس انسان کا انجام کیا ہوگا۔اِس کے بعد صحابۂ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس بات پر عرض کیا کہ اگر خدا کو انسان کے نتیجے کا علم ہے اور وہ متعین بھی ہے توپھر کیا ہم سب مجبور محض ہیں؟ایسے میں ہمارے عمل کا کیا فائدہ؟

 صحابۂ کرام کا یہ سوال یقیناً انسان کے اختیارات اور پابندیوں، یعنی تقدیر سے متعلق تھا۔ اِس سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے اِس تاثر کی نفی فرماتے ہوئےاپنی اصل بات جو پہلے بیان ہوئی تھی، اُسی کی مزید وضاحت کی کہ انسان مجبور محض نہیں ہے، آپ نے یہ بتایا کہ تمھارا انجام اللہ کے ’’علم‘‘ میں متعین ہے اور اُس کا علم تمھارے عمل پر اثر انداز نہیں ہوتا، اِس لیے عمل کرتے رہو، کیونکہ ہر ایک کے لیے وہی اعمال آسان کیے جائیں گے جن کے لیے اُسے پیدا کیا گیا ہوگا۔ گویا آپ نے اِس سوال کے جواب میں وہی بات بیان کی جو قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے اور جو نیک کاموں کا ارادہ کرتےہیں، اُن کے لیے وہی راہیں کھول دی جاتی ہیں، اِس لیے انسان کا اپنے ارادے اور اختیار سے کیا گیا انتخاب ہی بتا دیتا ہے کہ وہ کن اعمال کو اختیار کرنے میں دل چسپی رکھتا ہے ،چنانچہ جن اعمال کا وہ ارادہ کرےگا، وہی اعمال اُس کے لیے آسان کر دیے جائیں گے ۔

 یہاں پر تقدیر سے متعلق صحابۂ کرام کے اشکال پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کاجواب ختم ہو گیا۔اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس جواب میں جب اعمال کی انجام دہی، اخروی نجات  کا معیار اور انسان کی کوشش زیر بحث آئی تو آپ نے اب اِس موقع پر اپنی اِس بات کی وضاحت میں سورۂ لیل (٩٢)کی یہ آیات تلاوت فرمائیں ، نہ کہ مسئلۂ تقدیرکی وضاحت میں۔ سورۂ لیل کی یہ آیات کیسے اُسی بات کی وضاحت کرر ہی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشادفرمائی تھی، اِس کے لیے ضروری ہے کہ اِن آیات کو ، اِس سلسلۂ کلام کو ابتداسے دیکھا جائے۔ارشار ہوا ہے:

’’رات گواہی دیتی ہے، جب وہ چھا جائے؛ اور دن بھی، جب وہ روشن ہو؛ اور نر و مادہ کی تخلیق بھی، کہ دنیا ہے تو قیامت بھی ہے اورجو کچھ تم کر رہے ہو، اُس کے نتائج (وہاں) لازماً الگ الگ ہوں گے۔‘‘(۱- ۴)

‎استاذ مکرم جاوید احمد غامدی اِس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’‎ دنیا میں دو ہی چیزیں ہیں: ایک نفس اور دوسرے مادہ۔ پہلی چیز کے مظاہر میں سے نر و مادہ اور دوسری کے مظاہر میں سے شب و روز کو لے کر قیامت پر استدلال فرمایا ہے۔ یہ استدلال اِس پہلو سے ہے کہ اِن چیزوں میں نسبت زوجین کی ہے اور یہ دونوں عالم کی مجموعی مصلحت کے تناظر میں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، اِن میں سے ایک کو مان کر دوسرے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قیامت بھی بالکل اِسی طرح دنیا کا جوڑا ہے۔ دنیا کے ساتھ قیامت کو مان کر ہی اُس کے تمام مظاہر و احوال کی توجیہ کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا دنیا ہے تو قیامت بھی ہے۔ اِن میں سے ایک کو مان کر دوسری کا انکار نہیں کر سکتے، الاّ یہ کہ انسان دنیا کو رام کی لیلا اور یزداں کی تماشاگاہ مان کر مطمئن ہو جائے اور اُس کے خالق کے بارے میں بھی یہ تصور کر لے کہ وہ کوئی علیم و حکیم ہستی نہیں ہے، بلکہ ایک کھلنڈرا ہے جو اپنی دنیا کے خیر و شر سے بے نیاز اُس کی سیر دیکھ رہا ہے۔ ‘‘(البیان ۵ / ۴۷۱- ۴۷۲)

اِس کے بعدوہ آیات  ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت فرمایا۔ارشاد ہوا:

’’پھر جس نے (راہ خدا میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی۔‎اور اچھے انجام کو سچ مانا۔‎اُسے ہم سہج سہج راحت میں لے جائیں گے‎اور جس نے بخل کیا اور بے پروائی برتی۔‎اور اچھے انجام کو جھٹلایا۔‎اُسے ہم سہج سہج سختی میں پہنچا دیں گے۔‘‘(اللیل ٩٢: ٥ـ١٠)

مولانا امین احسن اصلاحی اِن آیات کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’قرآن میں یہ سنت الہٰی جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ نیکی کی راہ اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ اُن کی باگ اُن کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔ اُن کو اپنے نفس سے کوئی مزاحمت نہیں کرنی پڑتی، اِس وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی راہ نہایت ہموار ہے۔ نفس کی پیروی کرتے ہوئے وہ خوش خوش زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ اِس کے بعد اُن کو اُس مرحلے سے سابقہ پیش آتا ہے جس کو قرآن نے ’سَاُرْهِقُهٗ صَعُوْدًا‘[1] (میں اُس کو چڑھاؤں گا ایک کٹھن چڑھائی) سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں اِسی مرحلے کی طرف اشارہ ہے۔

اِس کے بالکل برعکس اُن لوگوں کی زندگی ہوتی ہے جو ایمان اور عمل صالح کی راہ پر چلنے کا حوصلہ کرلیتے ہیں۔ اُن کو قدم قدم پر اپنے نفس کی خواہشوں سے لڑائی کرنی پڑتی ہے اور اِس لڑائی ہی سے اُن کو بالتدریج وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو راہ کے عقبات عبور کرنے میں اُن کو مدد دیتی ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے اُن کے سامنے ’فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ، وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ‘[2]کی آخری منزل آجاتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن۹/۴۰۴)

سورۂ لیل (٩٢)کی اِن آیات پر تدبر سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید نے اِس مقام پر نہایت جامعیت سے انسان کے اعمال ،اُن کی حقیقت ، نجات کے معیار اور اِس ضمن میں اللہ کی سنت کو چند جملوں میں واضح کردیا۔ ہمارے نزدیک یہی وہ بات تھی جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں بھی زیر بحث تھی اور اِسی کی وضاحت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ لیل کی یہ آیات تلاوت فرمائیں۔اِس وضاحت کو سامنے رکھا جائے تو تین باتیں واضح ہوتی ہیں:

۱۔سورۂ لیل کی یہ آیات عمل کی بنیاد پر نجات کے معیار اوراُس سنت الہٰی کو واضح کر رہی ہیں جو نیکی اور بدی کا راستہ اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہے۔

۲۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات مسئلۂ تقدیر کی وضاحت میں نہیں ،بلکہ بالکل اُسی مفہوم میں تلاوت فرمائیں جس مفہوم میں قرآن مجید میں زیر بحث ہیں۔

۳۔یہ روایت قرآن مجید کی آیات کے بہ یک وقت مختلف احتمالات کو قبول کرنے کی تائید میں نہیں، بلکہ نفی میں کھڑی ہے۔

فاضل محقق نے اِس بحث میں جو دوسری روایت بطور مثال پیش کی ہے، وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔وہ لکھتے ہیں:

’’ابو سعید بن معلی سے بیان کرتے ہیں کہ میں نماز میں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔میں نے آپ کی بات پر لبیک نہیں کہا اور نماز کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہواتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری بات کا جواب دینے سے تمھیں کس چیز نے روکا؟ میں نے کہایا رسول اللہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔تو فرمایا: کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ: ’استجيبوا للّٰه وللرسول إذا دعاكم‘ (جب رسول تمھیں پکارے تو اس کی پکار کا جواب دو۔) یہاں سیاقِ آیت یہ ہے کہ رسول تمھیں ہدایت کی بات کی طرف بلائے تو اس کا جواب دو، گویا یہاں استجابت ، امتثالِ امر کے معنی میں ہے،اور فعل دَعا سے محض پکار نہیں،بلکہ ہدایت کی طرف بلانا مقصود ہے، کیونکہ ’’دَعا‘‘ کا تعلق ’لما یحییکم‘ (اس بات کی طرف جس میں تمھاری حیات ہے) سے ہے ۔ یہ تعلق واضح طور پر بتاتا ہے کہ یہاں دعوت کا تعلق ایک حیات بخش پیغام، یعنی دعوت دین ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو ان صحابی رضی اللہ عنہ کو خطاب کرنے کے لیے اس پس منظر سے مختلف ایک عمومی مفہوم میں استعمال فرمایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ساتھ ’لما یحییکم‘ کی تلاوت نہیں فرمائی۔‘‘

زیر بحث روایت کا مکمل متن کچھ یوں ہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، أَنّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ وَأَنَا أُصَلِّي، قَالَ: فَدَعَانِي، قَالَ: فَصَلَّيْتُ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ: ’’مَا مَنَعَكَ أَنَّ تُجِيبَنِي حِينَ دَعَوْتُكَ؟ أَمَا سَمِعْتَ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ: (يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ)؟ قم لأُعَلِّمَنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ‘‘، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّى كِدْنَا أَنْ نَبْلُغَ بَابَ الْمَسْجِدِ، فَقُلْتُ: نَسِيَ، فَذَكَرْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّكَ قُلْتَ لِي كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ’’الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ‘‘.(مسند طیالسی، رقم ۱۳۵۰)

’’‎ابوسعید معلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ مسجد میں تھے اور میں وہاں نماز پڑھ رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے بلایا ،کہتے ہیں کہ میں نے نماز پڑھی پھر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ نے فرمایا :کس چیز نے تمھیں اُس وقت جواب دینے سے روک دیا، جب تمھیں بلایا جا رہا تھا؟کیا تم نے سنا ہے اللہ تعالیٰ نے اِس حوالے سے کیا کہا ہے؟(پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی)، ’’اےایمان والو، اللہ اور اُس کے رسول جب تمھیں کسی ایسی چیز کی طرف بلائیں جس میں تمھاری حیات کا راز پوشیدہ ہو تو تم ان کی پکار پر لبیک کہو‘‘پھر آپ نے فرمایا : مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تمھیں قرآن کی عظیم ترین سورہ سکھاؤں گا ۔ تھوڑی دیر بعد آپ باہر تشریف لے جانے لگے اور مسجد کے دروازے کے قریب پہنچ گئے تو مجھے خیال ہوا غالباً حضور بھول گئے تومیں نے آپ کو یاد دلایا، اِس پر آپ نے فرمایا:الحمدللہ رب العالمین، یہی ہے جو سبع مثانی بھی ہے اور قرآن مجید بھی۔‘‘

‎یہ روایت کل پانچ صحابہ سے منقول ہے اورحدیث کی متعدد کتابوں میں نقل ہوئی ہے ۔اِس کے بھی تمام ۴۹طرق کے استقصا کے بعد اطمینان سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سند اً ’’صحیح‘‘ روایت ہے۔

یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ذخیرۂ حدیث میں بالکل یہی واقعہ ،اِنھی تفصیلات کے ساتھ ایک دوسرے صحابی کے حوالے سے بھی زیر بحث آیا ہے۔وہ روایت کچھ یوں ہے:

مَرَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي، فَصَرَخَ بِهِ، فَقَالَ: ’’تَعَالَى يَا أُبَيُّ‘‘، فَعَجَّلَ أُبَيٌّ فِي صَلاتِهِ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللهﷺ فَقَالَ: ’’مَا مَنَعَكَ يَا أُبَيُّ أَنْ تُجِيبَنِي إِذْ دَعَوْتُكَ، أَلَيْسَ اللهُ تَعَالَى يَقُولُ: (يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ)؟  قَالَ أُبَيٌّ: جَرَمَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، لا تَدْعُونِي إِلا أَجَبْتُكَ وَإِنْ كُنْتُ مُصَلِّيًا. ’’تحبُّ أنْ أعلِّمَكَ سورةً لم ينزِلْ في التوراةِ ولا في الإنجيلِ ولا في الزَّبورِ ولا في الفرقانِ مثلُها؟ فقال أُبيُّ: نعم، يا رسولَ اللهِ. فلمّا بلغ البابَ ليخرجَ قال له أُبيُّ: السُّورةُ، يا رسولَ اللهِ، فوقف فقال: ’’نعم‘‘! كيف تقرأُ في صلاتِكَ؟ فقرأ أُبيُّ أمَّ القرآنِ، فقال رسولُ اللهِ ﷺ ’’والذي نفسي بيدِه ما أُنزلَ في التوراةِ ولا في الإنجيلِ ولا في الزبورِ ولا في الفرقانِ مثلُها وإنما هي السَّبعُ من المَثاني التي آتانيَ اللهُ عزَّ وجلَّ‘‘.(السنن الکبریٰ،بیہقی،رقم ۳۶۳۹)

’’‎ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابی بن کعب کے پاس سے گزرے ۔ وہ اُس وقت نماز پڑھ رہےتھے۔(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی مشغولیت سے واقف نہ تھے، اِسی لیے) آپ نے اُنھیں پکارا کہ ادھر آؤ اُبی۔ ا ُبی نے جلد نماز ختم کی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں دیکھ کر فرمایا: اُبی ،جب میں نے تمھیں پکارا تو کس چیز نے تمھیں جواب دینے سے روکے رکھا؟ کیا تم نے قرآن مجید میں نہیں پڑھا کہ اللہ کیا فرماتا ہے: ’’اےایمان والو، اللہ اور اُس کے رسول جب تمھیں کسی ایسی چیز کی طرف بلائیں جس میں تمھاری حیات کا راز پوشیدہ ہو تو تم ان کی پکار پر لبیک کہو‘‘۔اِس پر ابی نے کہا :اے اللہ کے رسول اِس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ آپ مجھے پکاریں اور جواب نہ آئے، لیکن دراصل میں نماز پڑھ رہا تھا۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم پسند کرو گے کہ میں تمھیں ایسی سورہ کے بارے میں بتاؤں جو نہ تورات میں ہے ،نہ انجیل میں ،نہ زبور میں اور نہ اِن جیسی کسی فیصلہ کرنے والی کتاب میں۔تو اُبی نے کہا:ضرور اے اللہ کےرسول۔پھر جب رسول اللہ مسجد کے دروازے پر پہنچے تو ابی نے عرض کیا :رسول اللہ وہ سورہ ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:نماز میں کیا پڑھتے ہو؟تو اُبی نے اُ م القرآ ن، یعنی سورۂ فاتحہ تلاوت کی۔اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس رب کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، ایسی سورہ نہ تورات میں نازل ہوئی ،نہ انجیل ،نہ زبور اور نہ اِن جیسی دوسری کسی فیصلہ کر نے والی کتاب میں۔یہی سورہ ہے جو سبع مثانی بھی ہے۔‘‘

فاضل محقق نے اِن روایات کے حوالے سے جو نتیجہ اخذ کیا تھا، وہ کچھ یوں ہے :

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ انفال (٨)کی یہ آیت اُس پس منظر میں تلاوت نہیں کی جس پس منظر میں قرآن مجید میں زیر بحث ہے۔

۲۔ یہ آیت صحابی کا یہ عذر پیش کرنے کے بعد پڑھی گئی کہ میں نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔

 ۳۔اِس آیت سے ایک مختلف مفہوم ا خذ کرنے کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آیت میں ’لِمَا يُحْيِيْكُمْ‘ کے الفاظ قصداً تلاوت نہیں کیے ،اِس لیے کہ مقصود دین سے متعلق کوئی بات کرنا نہیں تھا۔

ہمارے نزدیک اِن روایات کے حوالے سے بھی فاضل محقق کی راے مزید غور کا تقاضا کر تی ہے ۔روایات کے جن متون کو ہم نے اوپر اختیار کیا ہے، اُن پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے فاضل صاحب علم نے اِس ضمن میں جس روایت کو سامنے رکھا ہے، اُس میں مکمل بات بیان نہیں ہوئی ہے۔ زیر نظر روایات کے مطابق  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک مرتبہ مسجد کے احاطے میں ایک صحابی کو آوازدی، جس وقت آپ نے صحابی کو پکارا تو وہ صحابی آپ کے سامنے نہ تھے۔ جب اُن صحابی کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا تو آپ کو یہ گمان ہواکہ اُن صحابی نے غالباً  آپ کی بات پر توجہ نہیں دی۔ اِس کے بعد جب وہ صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نےاِس موقع پر قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی کہ رسول جب کسی کو دین کی دعوت کے حوالے سے پکاریں تو اُس پر فوری لبیک کہنا چاہیے، اِس لیے کہ رسول کا پکارنا کسی عام سائل کی صدا نہیں ہے، بلکہ رسول خدا کی جانب سے ہدایت پہنچانے کی ذمہ داری پر فائز ہوتے ،اُن کی بات کو فوراً رسپانس کرنا، اُن کی اطاعت کا ناگزیر تقاضا ہے۔روایت کے مطابق اِس کے بعداُن صحابی نے اپنا عذر پیش کیا کہ میں نماز پڑھنے میں مصروف تھا تو اِس موقع پر پہلی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواُن کا یہ عذر معلوم ہوا۔یہ عذر معلوم ہوتے ہی  آپ نےبغیر کسی دوسرے تبصرے کے اُن صحابی کو وہ بات بتا دی جس کے لیے آپ انھیں پکار رہے تھے۔اور جو بات آپ نے بیان فرمائی، اُس کا تعلق قرآن مجید سے تھا،گویا   آپ نے اُن صحابی کو آواز ہی دین سے متعلق ایک بات بتانے کے لیے دی تھی۔اِس وضاحت کو سامنے رکھا جائے تو تین باتیں معلوم ہوتی ہیں:

۱۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ انفال (٨)کی آیت جس مفہوم میں قرآن مجید میں زیر بحث ہے، بالکل اُسی مفہوم میں تلاوت فرمائی،یعنی رسول اللہ دین کی دعوت کے حوالے سے ہی اُن صحابی کو بلا رہے تھے۔

‎۲۔اِن آیات کی تلاوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سوال کیا، اُس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ اُن صحابی کے جواب نہ دینے کی وجہ سے واقف تھے،نہ آپ کے علم میں یہ تھا کہ وہ نماز ادا کرنے میں مصروف تھے،چنانچہ یہ آیات اُن کا عذر معلوم ہونے سے پہلے پڑھی گئیں ۔

‎۳۔آپ نے جو آیت تلاوت فرمائی اُس میں ’يُحْيِيْكُمْ‘ کو بھی پڑھا ،قصداً کوئی لفظ حذف نہیں کیا ۔

ہمارے نزدیک اگرچہ اِن دونوں روایات سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کسی بھی روایت کی کوئی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عائد نہیں ہوتی،یہ روایات لوگوں نے اپنی ایما پر بیان کی ہیں،اِن میں الفاظ کا تغیر،ربط و تقدیم اور راوی کا فہم سب اثر انداز ہو سکتا ہے اور نہ قرآن مجید کی تاویل واحد کے مقدمے کو قرآن سے خارج کسی تاریخی روایت کی روشنی میں سمجھا جانا چاہیے ،تاہم اِس سب کے باوجود یہ روایات جس مقدمے کی تائید میں بطور مثال پیش کی گئی ہیں، اِن پر غورسے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ اِس دعوے کی ہرگز تائید نہیں کرتیں کہ قرآن مجید کی آیات کی ’’ایک‘‘ متعین تاویل نہیں ہے اوررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن مجید کی آیات کو قرآن میں بیان کردہ مفہوم سے علیحدہ کر کےمختلف مفہوم میں استعمال فرمایا ہے، بلکہ روایات پر تدبر سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی اِن آیات کو بالکل اُسی مفہوم میں بیان فرما رہے ہیں جو مفہوم قرآن مجید کے الفاظ،اُس کے جملوں کی ساخت اور داخلی نظم سے واضح ہوتا ہے۔

(اگست 2020ء)


[1]۔ المدثر ۷۴: ۱۷۔

 [2] ۔ الفجر ۸۹: ۲۹- ۳۰۔

Leave a comment