محمد حسن الیاس
توہین رسالت کے قانون پر علما کی حساسیت
(دیوبندی روایت کو درپیش چیلنج اور اس کی تاریخ)
توہین رسالت کی سزا کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ امت کی علمی تاریخ میں یہ مسئلہ ہمیشہ سے علما کے مابین زیر بحث رہا ہے۔اس کی اصل بنیاد تو یقیناً دینیاتی ہے، جیسے کہ قرآن مجید کی بعض آیات سے اس جرم کی سزا کی تعیین یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کی جانے والی چند روایات میں اس سزا کے نفاذ کی ترغیب یا پھر صحابہ کے آثار میں ان مجرموں کے ساتھ معاملے سے استدلال۔ان تینوں پہلوؤں سے استاد مکرم جناب جاوید احمد غامدی نے اپنے آرٹیکل ’’توہین رسالت کا مسئلہ ‘‘ میں اس اصل استدلال کی غلطی واضح کی ہے جو علما اس معاملے میں، بالعموم پیش کرتے ہیں۔
غامدی صاحب کی اس تنقید کا آج تک کوئی سنجیدہ علمی جواب ہمارے سامنے نہیں آیا، جو علما کے اس دینیاتی استدلال کی صحت کو ثابت کرسکے۔
البتہ بر صغیر میں توہین رسالت کے قانون کے حوالے سے جو حساسیت پائی جاتی ہے، ہماری نظر میں اس کے پس منظر میں دینیاتی استدلال کے ساتھ ساتھ بعض سماجی عوامل بھی شامل ہیں۔ ان میں سب سے اہم اس خطے میں احمد رضا خان صاحب کے مکتب فکر کا ظہور ہے۔اس مکتب فکر نے تصوف کے وہ اطلاقی مباحث جن کا علمی منہاج پر کبھی دفاع نہیں کیا گیا تھا، انھیں قدیم فقہی تراث کو مانتے ہوئے دینیاتی استدلال کے آئینے میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
احمد رضا خان بریلی صاحب نے تصوف کے ان مافوق العقل اور خلاف نقل مقدمات کے ثبوت کے لیے جو علم الکلام وضع کیا، وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی آفاقی اور ابدی جہت کو سامنے لاتا ہے۔یہ جہت امت کی علمی تاریخ میں منتشر کلامی بحثوں کا تو موضوع رہی ہے، لیکن اسے منہاج بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ایک ناقابل تسخیر طاقت کے طور پر پیش کرنا، یہ نتیجۂ فکر یقیناً بریلوی مکتب فکر ہی کا ہے۔
اس منہج فکر میں دین، شریعت، تصوف سب کا سررشتہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ کی ما فوق البشر شخصیت کو دکھایا گیا ہے، جس سے ہر امر کا صدور ممکن ہے۔
لہٰذا اس حوالے سے کسی قسم کے شبہے، اعتراض اور متبادل تفہیم سے یہ سارا فریم ورک چٹک جاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے حوالے سے اس مکتب فکر میں غیر معمولی حساسیت اور جذباتیت پائی جاتی ہے۔
لہٰذا اگر اعلیٰ حضرت کے ان مقدمات کی تحلیل کی جائے تو سادہ الفاظ میں یہ ہیں کہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس درجۂ عالیہ پر فائز ہے کہ قیامت تک کے غیب کا ما کان وما یکون آپ کے احاطۂ علم میں ہے، آپ ہر جگہ قائم و دائم، حاضر و ناظر اور اپنے عاشقوں کے حامی و ناصر ہیں تو پھر آپ سے محبت رکھنے والے غوث اعظم دستگیر سے کرامات کا ظہور بھی عین اسی تعلق عشق کا نتیجہ ہے۔بات یہاں تک پہنچی کہ صوفیہ جنھیں اندر کی باتیں کہتے ہیں، انھیں منبر کی صدا بنا کر لوگوں میں بلا خوف تردید بیان کرنا چاہیے۔
تصوف اور فقہ کا یہ آمیزہ ماضی کی نسبت ایک بہت پر اعتماد موقف تھا۔اسی لیے اعلیٰ حضرت نے اس کی اساس پر کسی قسم کے سمجھوتے سے صاف انکار کیا۔
’’حسام الحرمین‘‘ اس حوالے سے ان کی نفسیات کو واضح کرتی ہے کہ انھوں نے اس وقت کی نمایندہ دینی قیادت کو عوام میں disown کرنے کی مہم چلائی، جو اس نئے منہج کی قبولیت میں مزاحم ہوسکتی تھی۔
مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا خلیل احمد سہارنپوری، دیوبند کی اس نمایندہ قیادت پر بغیر کسی لگی لپٹی کے محض اس وجہ سے توہین و تکفیر کے فتوے دیے گئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی وہ حیثیت ماننے سے عملاً انکاری ہیں جو اعلیٰ حضرت نے وضع کی تھی اور یہ عمل گستاخی اور اہانت رسول کے درجے میں آتا ہے۔یوں اگر دیکھا جائے تو بر صغیر میں گستاخی رسالت کے جرم کا پہلا منظم فتویٰ ’’دیوبند کی اعلیٰ قیادت‘‘ کے خلاف دیا گیا تھا۔
دیوبندی علما نے ابتدا میں اگرچہ اس غوغے کا بہت زور سے جواب دیا اور ’المُہَنَّد علی المُفَنَّد‘ لکھ کر مقامی اور عالمی سطح پر اپنا نام صاف کرایا، لیکن متاخرین علماے دیوبند کے موقف سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انھیں جلد ہی اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ فکری اختلاف عوامی سطح پر نہ اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی قبولیت کی زمین ہموار ہے، اس لیے کہ جو مباحث محل نزاع ہیں، ان میں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی حیثیت پر اختلاف ہے اور اہل بریلی اس معاملے میں کسی قسم کے compromise پر آمادہ نہیں ہیں اور وہ اسے جذباتی عوامی مسئلے کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اس لیے دیوبندی علما کے لیے اس معاملے میں خود کو بچا کر چلنے ہی میں عافیت ہے۔
بریلوی مکتب فکر کے عوامی ظاہرے میں سارا ارتکاز چونکہ مذہب کے اس پہلو سے تھا جو انسان کی نفسیات میں موجودfestivityاورculturalتقاضوں کو پورا کرتا تھا، مثلاً قل، بارھویں، عید میلاد النبی کی تقریبات، اسی لیے ان کا عوام سے براہ راست رابطہ بہت مضبوط ہوتا رہا، یہی وجہ ہے کہ ان کا اثر دیوبند کی اس علمی تحریک کی عوامی پذیرائی سے بہت زیادہ تھا جو مفسرین، محدثین اور فقہا کے فکری، فنی اور نظریاتی کام کے تسلسل سے پیدا ہوئی تھی۔
چنانچہ ایک جانب دیوبندی قیادت کا یہcompromising رویہ اور دوسری جانب بریلوی علما کا جارحانہ اقدام، صورت حال کو بالآخر اس جگہ پر لے آیا جہاں دیوبندی مکتب فکر بہ تدریج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی تخفیف، اہانت اور گستاخی کے اس داغ کو دھونے پر مجبور ہوگیا، جسے اب برصغیر میں عوامی سطح پر پذیرائی مل چکی تھی۔ دیوبند کا یہ compromise دراصل حالات کا جبر تھا، جسے طوعاً و کرہاً قبول کر لیا گیا۔یہ اس بات کا بھی اعتراف تھا کہ عوام میں بریلوی افکار کی مقبولیت دیوبند کے اثرات سے بہت زیادہ ہے۔
تقسیم کے بعد پاکستان کی دیوبندی قیادت نے بریلوی علما کے ساتھ اسیcompromise کو جاری رکھا، یہاں تک کہ جس وقت توہین رسالت کی سزا پر قانون سازی کا شور اٹھا تو دیوبندی قیادت نے اس حوالے سے اپنی وفاداری اور عشق رسول سے سرشاری کا یقین دلا کر خود کو ایک بار پھر ہدف بننے سے بچایا اور اپنے ماضی کے علم اور جمہور علما کے موقف سے بھی دست برداری کا اعلان کرتے ہوئے اسی بریلوی موقف کو اپنا لیا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اس نئے موقف کو اپنا کر توہین رسالت کے جرم کی سزا کے حوالے سے حنفی فقہاکا موقف بھی اسے ہی قرار دیا جو موجودہ دور کے بریلوی واعظین پیش کر رہے تھے، جس میں نہ توبہ کی گنجایش تھی، نہ مرد و عورت کی تمیز تھی، نہ مسلم و غیر مسلم کی تخصیص تھی۔
ہمارے خیال میں علمی سطح پر دیوبندیت کی یہ شکست بریلوییت کے اس سماجی اثر کے تحت ہے جسے احمد رضا خان بریلوی نے پوری استقامت سے پیش کیا اور عوامی زور پر منوایا۔یہی وجہ ہے کہ آج دیوبندی علما لوگوں کو گستاخ قرار دے کر قتل کرنے کی اسی تحریک کا حصہ ہیں جس تحریک نے ان کے آبا و اجداد کو توہین رسالت کا مجرم قرار دے کر اپنے ایمان کی وضاحتیں دینے پر مجبور کر دیا تھا۔
ہماری راے میں اب دیوبندی مکتب فکر کے لیے یہ ایکpoint of no return ہے۔ نوجوان دیوبندی علما میں اس compromise کا احساس تو پیدا ہورہا ہے، لیکن اب دیوبندی مکتب فکر کو یہاں سے واپسی کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی، کیونکہ اب اس معاملے میں ان کی علمی آرا کو شاید ان کے مقلدین بھی اتنی اہمیت نہ دیں۔
یہ بالکل وہی صورت حال ہے کہ جب عالمی طاقتوں کی سیاسی کشمکش میں افغانستان کی لڑائی کو جہاد قرار دے کر دیوبندی مکتب فکر نے اپنی خدمات پیش کرنے کے بعد پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا تو دیوبندی قیادت کو اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوگیا کہ اس جہاد کے خاتمے کی بات انھی کے شاگرد اور پیداکردہ مجاہدین نے نہیں مانی اور اپنے ہی اکابرین کے خون کے پیاسے ہو گئے، جس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی۔
لہٰذا توہین رسالت کے اس قانون پر بھی دیوبندی علما کے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ جس پرائے شگون پر ناک کٹوائی گئی ہے، آج اگر وہ اس سے لوٹنا بھی چاہیں تو خدا نہ کرے ان کے متبعین انھی کی توبہ اور رجوع قبول کرنے سے انکار کردیں۔
حال ہی میں ہم نے اس ضمن میں 295c کے قانون اور توبہ کے حوالے سے جب دیوبندی علما کو توجہ دلائی تو اس مکتب فکر کے نابغہ علما نے اسی عجز کا اظہار کیا ہے کہ بات ان کے ہاتھ میں نہیں رہی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ فقہا کے اختلافات کو اجاگر کر کے یہ پیغام تو دے سکتے ہیں کہ اس قانون کو محض ایک راے پر بنایا گیا تھا، لیکن اس میں ترمیم و اضافے کا بوجھ ان کے کاندھے نہیں اٹھا سکتے۔
(اکتوبر 2024ء)
ـــــــــــــــــــــــــ