جنگ اور نفرت کا قومی جنون
(ہماری اجتماعی نفسیات کا المیہ)
ہماری قوم کی حسِ مزاح، زندہ دلی اور حب الوطنی اپنی جگہ،
مگر جنگ کی محبت اور دشمن کے خلاف نفرت کا وہ بے قابو جنون جو آج قوم کے لاشعور میں دہک رہا ہے۔
یہ محض ایک وقتی جذبہ نہیں،
بلکہ ایک ایسا قومی نفسیاتی مرض ہے جس کا زہر ہماری رگ رگ میں اتر چکا ہے۔
ہماری اجتماعی سوچ اس مقام پر آ چکی ہے جہاں
خونریزی بھی تفریح ہے، تباہی بھی جگت بازی کا موضوع ہے، اور جنگ بھی مسکراہٹوں میں لپٹی ایک خواہش بن چکی ہے۔
یہ ان معاشروں کی پہچان ہوتی ہے
جو برسوں تک خواب بیچنے والے نیریٹیوز کا شکار رہیں:
“فکر نہ کرو، وقت آئے گا اور تم اسرائیل پر قبضہ کر لو گے؛ بھارت تمہارے قدموں میں ہو گا؛ بس تھوڑا انتظار!”
ایسا جھوٹ جب نسل در نسل دل و دماغ میں بٹھایا جاتا ہے،
تو قومیں حقیقت سے کٹ جاتی ہیں،
اور پھر ایک وقت آتا ہے جب وہ جنگ کو رقص سمجھنے لگتی ہیں،
لاشوں کو گنتی کا کھیل،
اور تباہی کو اپنی عظمت کا استعارہ۔
لیکن یہ زہر صرف دشمن کے خلاف نہیں بہتا؛
وقت آتا ہے جب یہی جنون پلٹ کر اپنے ہی معاشروں کو کھا جاتا ہے۔۔۔
اندرونی طور پر اخلاقی زوال، قانون شکنی، اور اجتماعی نظم کی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
پھر کوئی دشمن باقی نہیں رہتا؛
انسان خود اپنی تہذیب اور اپنے ضمیر کا دشمن بن جاتا ہے۔
یہ نفسیاتی زوال کوئی حادثہ نہیں۔
یہ ستر سال کی شعوری دانشورانہ خیانت کا نتیجہ ہے۔
ہماری دانش نے، ہمارے میڈیا نے، اور ہماری نصابی فکر نے نسلوں کے اندر یہ زہر اتارا ہے —
کہ دشمن سے نفرت کو ایمان سمجھو،
اور اپنی کمزوریوں کو خوش فہمیوں میں لپیٹ کر بھول جاؤ۔
آج ہمیں خوابوں کے ملبے سے باہر نکل کر سچائی کی سخت زمین پر کھڑا ہونا ہو گا۔
ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہو گا:
کیا خونریزی پر قہقہے لگانے والی قومیں کبھی اپنے لیے عزت، امن اور وقار کا راستہ بنا سکتی ہیں؟
ہم اپنی نسلوں کے دلوں میں انسانی جان کی حرمت کیسے اتار رہے ہیں؟
اور ہمارے توسیع پسندانہ مخفی عزائم کب تک انگڑائیاں لیتے رہیں گے؟
اگر جواب نفی میں ہے،
تو ہمیں اپنے ٹوٹے خوابوں کی خاک جھاڑ کر آگے بڑھنا ہو گا۔
_______________________
محمد حسن الیاس