Skip to content Skip to footer

’’جو پیغمبر کی توہین کرے، اُسے قتل کردو‘‘

ہمارے مذہبی اجتماعات ، دینی  وعوتی لٹریچر  اور توہین رسالت کی سزا کی بحثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ جوشخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو  سب و شتم کرے  ،اُسے قتل کردو۔

اِس روایت کے مکمل الفاظ کچھ یوں ہیں:

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيُّ الْقَاضِي، قَالَ: نَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ’’مَنْ شَتَمَ الأَنْبِيَاءَ قُتِلَ، وَمَنْ شَتَمَ أَصْحَابِي جُلِدَ.(المعجم الکبیر،رقم ۲۳۵)

’’عبداللہ بن محمد عمری قاضی بیان کرتے ہیں کہ اسمٰعیل بن اویس نے بتایا کہ موسیٰ بن جعفر اپنے والد سے،وہ اپنے دادا سے، وہ حسین بن علی سے اور حسین اپنے والد علی ابن ابی طالب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی نبی کو گالی دی، اُسے قتل کیا جائے گا اور جس نے میرے کسی صحابی کو گالی دی، اُسے کوڑے مارے جائیں گے۔‘‘

  پورے ذخیرۂ حدیث میں یہ روایت تنہا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سےبیان ہوئی اور آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے کم و بیش ۳۰۰ سال بعد پہلی مرتبہ طبرانی کی المعجم الصغیر اور الاوسط میں سامنے آئی ہے۔اتنے لمبے عرصے بعد اِس روایت کے منظر عام پر آنے پر یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ حدیث کی کتب کی باقاعدہ تدوین سے پہلے روایات اِسی طرح سینہ بہ سینہ زبانی روایات کی صورت میں نقل ہوتی رہی ہوں گی،لیکن علی رضی اللہ عنہ سے منسوب روایات کی تحقیق اور اُن کےرد و قبول کا عمل حدیث کے ابتدائی ترین مصادر، مثلاً مسند طیالسی،مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں طبرانی سے کم و  بیش ۱۵۰ سال پہلے شروع ہوچکا تھا۔اِن تمام مصادر میں علی رضی اللہ عنہ سے منسوب روایات نقل ہورہی ہیں، لیکن اِن میں سے کسی بھی کتاب میں یہ روایت سرے سے زیر بحث ہی نہیں ۔یہی معاملہ حدیث کی باقی تمام بڑی کتابوں ،مثلاً موطا اما م مالک، صحیح مسلم، صحیح بخاری،مسند احمد، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ،سنن ابو داؤد کا ہے۔ اِن میں سے بھی کسی ایک کتاب میں اس روایت کوقبول نہیں کیا گیا۔

اِسی طرح یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ اگر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رہتی دنیا تک  کے لیے اِس نوعیت کی کوئی ہدایت فرمائی ہوتی تو آپ کے مشن میں شریک باقی صحابہ سے اِس نوعیت کی کوئی روایت یا پھر صحابہ کے آثار میں اِس پر عمل کی کوئی تاریخ بھی ضرور نقل ہوتی۔ روایت کے مضمون سے صاف واضح ہے کہ یہ ہدایت کسی انفرادی معاملے سے متعلق نہیں  کی گئی، بلکہ ایک شخص کی جان لینے جیسے اہم  ترین معاملے سے متعلق ہے ۔ روایت کا اِس پہلو سے ’’غریب ‘‘ ہونا  بھی اِس کی صحت پر سوالات اٹھاتا ہے۔

چنانچہ اِنھی سوالات کو سامنے رکھ کر ہم اِس روایت کی سند پر غور کرتے ہیں۔

طبرانی کی المعجم الاوسط میں زیر بحث اِس روایت کی سندپر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ محدثین کا اِس بات پر اتفاق ہےکہ یہ سرتاسر ایک ’’ضعیف‘‘ روایت ہے۔

محقق علما اِس روایت کا حکم اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

ضعیف: إسناد فيه متهم بالوضع وهو عبيد الله بن محمد العمري وهو متهم بالكذب.

’’یہ روایت ضعیف ہے،اِس لیے کہ اِس کی سند میں ایک راوی عبید اللہ بن محمد عمری موجود ہے جس پر خود سے روایت گھڑنے اور جھوٹ بنانے کا الزام ہے۔‘‘

اِس راوی کے بارے میں بھی محدثین کا اتفاق ہے کہ نہ صرف یہ کہ جھوٹ بولتا تھا، بلکہ رسول اللہ کی نسبت سے خود سے روایتیں گھڑتا بھی تھا۔چنانچہ یہی بات دیگر متعدد محدثین بھی صراحت سے بیان کرتے ہیں۔مثلاً ’رماہ النسائي بالکذب‘’’نسائی  نے اِسے جھوٹا قرار دیا ہے‘‘۔

’قال الدار قطني: کان ضعیفًا‘’’دارقطنی کے بقول، یہ راوی ضعیف ہے‘‘۔

طبرانی کے بعد یہ روایت رازی کی ’’فوائد تمام‘‘ میں نقل ہوئی ہے۔وہاں اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں:

حَدَّثَنِي عَبْدُ السَّلامِ بْنُ صَالِحٍ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا، حَدَّثَنِي أَبِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ’’مَنْ سَبَّ نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ فَاقْتُلُوهُ، وَمَنْ سَبَّ وَاحِدًا مِنْ أَصْحَابِي فَاجْلِدُوهُ ‘‘.

’’عبد السلام بن صالح الہروی  ،علی موسیٰ رضا سے، وہ ابی موسیٰ جعفر سے،وہ اپنے والد جعفر بن محمد سے،وہ اپنے والد محمد بن علی سے، وہ اپنے والد حسین سے اور حسین علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی نبی کو گالی دی، اُسے قتل کر دو اور جس نے میرے کسی صحابی کو گالی دی،اُسے کوڑے مارو۔‘‘

اِس روایت کی سند طبرانی کی سند سے مختلف ہے، لیکن اِس روایت کے بارے میں بھی محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ ضعیف ہے۔

علماے حدیث اِس روایت کا حکم اِن الفاظ میں بیا ن کرتے ہیں:

إسناد فيه متهم بالوضع وهو الحسين بن حميد الخزاز وهو متهم بالكذب.

’’اِس کی سند میں حسین بن حمید ہے جو کہ جھوٹا  اور روایت گھڑنے والا ہے۔‘‘

 الحسين بن حميد الخزاز کے بارے میں یہ طے ہے کہ وہ ایک وضاع تھا،اور خود سے روایتیں گھڑتا تھا۔ ائمۂ جرح و تعدیل میں سے مطین الحضرمی کا  اِس کے بارے میں تبصرہ ہے: ’كذاب بن كذاب بن كذاب‘۔اِسی طرح ابو احمد بن عدی الجرجاتی کہتے ہیں: ’متهم فيما يرويه‘۔

اِس کے بعد روایت کا یہی مضمون قاضی عیاض مالکی نے سیدنا علی کے دنیا سے رخصت ہونے کے کم و بیش پانچ سو سال بعد اپنی تصنیف ’’الشفا بتعریف حقوق المصطفٰی‘‘میں ایک دوسری سند سے بھی نقل کیا ہے۔اُس روایت کے الفاظ یہ ہیں:

عَنْ الشَّيْخِ أَبِي ذَرٍّ الْهَرَوِيِّ إِجَازَةً، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ الدَّارَقُطْنِيُّ، وَأَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَّوَيْهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نُوحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ زَبَالَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: ’’مَنْ سَبَّ نَبِيًّا فَاقْتُلُوهُ، وَمَن سَبَّ أَصْحَابِي فَاضْرِبُوهُ‘‘. (۱۷۱)

قاضی صاحب کی یہ کتاب اگرچہ حدیث کے مصادر اصلیہ میں شمار نہیں ہوتی، لیکن اس کے باوجود محقق علما نے اِس کی سند کی بھی تحلیل کی ہے اور اُن کے مطابق یہ بھی ایک ’’ضعیف‘‘ روایت ہے۔علماے حدیث اِس روایت کا حکم اِن الفاظ میں بیا ن کرتے ہیں:

إسناد ضعيف، فيه عبد العزيز بن الحسن المدني، وهو ضعيف الحديث.

’’اِس کی سند ضعیف ہے، اِس لیے کہ اِس میں عبد العزیز بن حسن مدنی موجود ہے جو ضعیف راوی ہے ۔‘‘

ائمۂ جرح و تعدیل میں سے ابو حاتم بن حبان کا اِس راوی کے بارے میں تبصرہ ہے:

يأتي عن المدنيين بالمعضلات فبطل الاحتجاج به.

’’یہ دو شہروں سے معضلات لاتا تھا ۔اِس کی باتوں سے کوئی استدلا ل کرنا باطل ہے۔‘‘

لہٰذا محدثین کا اتفاق ہے کہ اِس روایت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہےاور یہ ایک ’’ضعیف‘‘ اورناقابل التفات روایت ہے۔

 روایت کی سند کے ضعف اور مضمون کے اضطراب سے اُن اشکال کو تقویت ملتی ہے جس کا ذکر ہم نے ابتدا میں کیا ۔غالباً یہی وجہ ہے کہ حدیث کی تمام بڑی کتابوں میں سے کسی ایک نے بھی اِسے قبول نہیں کیا۔

چنانچہ اِس طرح کی روایت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کرنا ایک بڑی جسارت ہے۔ ہر بندۂ مومن کو اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔اس حوالے سے بے شمار صحیح روایات میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تنبیہ نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا [لِیُضِلَّ بِهِ ] [النَّاسَ  ] فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ.(احمد، رقم۱۴۱۳)

’’جس نے لوگوں کو گم راہ کرنے کے لیے جان بوجھ کرکوئی جھوٹی بات میری نسبت سے بیان کی، وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔‘‘

(اکتوبر 2021ء)

Leave a comment