Skip to content Skip to footer

ربیع الاول

محمد حسن الیاس

ربیع الاول

ربیع الاول، لاریب ایک مبارک مہینا ہے۔‎اِس مہینے میں  وہ ہستی دنیا میں تشریف لائی، جسے پروردگارِ عالم نے  قیامت تک کے لیے اپنی آخری حجت اور روے زمین پر اپنی حتمی ہدایت دے کر مبعوث فرمایا۔  ‎رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں  دین پہنچانے کی یہ ذمہ داری بے کم و کاست ادا کی، وہاں اپنی سیرت و کردار سے رہتی دنیا تک ایک بے مثل نمونۂ حیات بھی تاریخ کے سپرد کیا۔

‎یہ مہینا اگر آپ سے تعلق کی یاد تازہ کرنے، آپ کی سیرت و سوانح کو جاننے اور آپ سے محبت کے جذبات کو بڑھانےکا سبب بنے تو یقیناً ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔لیکن انسان بالعموم حقیقت سے ہٹ کر نظریات اپناتا ہے اور اپنے تعلق کے اظہار میں اعتدال کو چھوڑکر افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔انسانوں کے جن امراض کا علاج سرورِ عالم  صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دین کی ہدایت کے ذریعے سے کیا ہے، اُن میں ایک  بڑا مرض یہی افراط و تفریط ہے۔

‎لہٰذا ربیع الاول  وہ بہترین وقت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بعض قائم شدہ تصورات کو خود آپ کے دیے ہوئے دین کی روشنی میں تازہ کر لیا جائے ۔مقصد یہ ہے کہ آپ کی ذاتِ اقدس سے محبت و عقیدت کا تعلق اُسی ہدایت کے مطابق استوار ہو، جو قرآن و سنت اور آپ کے اسوۂ حسنہ  میں موجود اورمطلوب ہے۔

‎ چند رائج تصورات درج ِذیل ہیں:

‎1۔ ’’یہ کائنات اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنائی تھی۔‘‘

‎ایسی کوئی بات دین اسلام کے کسی ماخذ میں موجود نہیں ہے۔ اِس کے بالکل بر خلاف قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اِس کائنات میں انسان کی تخلیق کا مقصد اُس  کے عمل کا امتحان ہے۔‎ارشاد ہوا ہے:

’’‎بہت بزرگ، بہت فیض رساں ہے، وہ( پروردگار) جس کے ہاتھ میں عالم کی پادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔(وہی) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے …۔ ‘‘  (الملک  67: 1-2)

‎انبیاے کرام صرف اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی ہدایت پہنچانے  کی ذمہ داری تفویض کرتے ہیں۔اِس ذمہ داری کی انجام دہی میں وہ تنکا برابر کمی یا زیادتی نہیں کر سکتے۔

‎2۔ ’’رسول اللہ سے عشق ہی جنت میں لے جائے گا۔‘‘

‎جنت میں جانے کے حوالے سے جو معیار قرآن مجید میں موجود ہے اور جو معیار پوری زندگی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا، وہ یہ ہے کہ انسان اللہ پرسچا ایمان رکھے، اور اُس کی شریعت پر عمل کرے۔اُس کے پیغمبروں کو اللہ کا فرستادہ مانے، ان کی اطاعت کرے ــــ اِس لیے کہ وہی اللہ کی ہدایات ان تک پہنچاتے ہیں ــــ ان سے محبت رکھے، ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرے،آخرت پر پختہ ایمان لائے، نیک عمل کرے اور اخلاقی برائیوں سے بچا رہے۔

‎‎3۔ ’’سارے نبی تیرے در کے سوالی‘‘

‎قرآن مجید نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ کے نزدیک دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہےاور وہ اسلام ہے۔اسی دین کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا کا سلسلہ جاری فرمایا، اس سلسلے کے پہلے پیغمبر سیدنا آدم تھے۔یہ ابلاغ اللہ نے قوموں کے انتخاب کے ذریعےسے  بھی کیا۔ اس سلسلے میں امام الرسل کی حیثیت سیدنا ابراہیم کو حاصل ہے۔اس مشن کے لیے نبوت ان کی ذریت میں خاص کردی گئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھی کے بیٹے سیدنا اسماعیل کی قوم میں مبعوث کیے گئے ۔لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان بے شمار  پیغمبروں میں سے دین اسلام کے آخری رسول ہیں۔ تمام انبیا کی ہدایت عالمی، آفاقی اور اصل اسلام ہی کی تھی۔قرآن مجید انبیا میں سے کسی ایک کی مطلق فضیلت کے تصور کی نفی کرتا ہے۔چنانچہ اُس نے اہل ایمان کی یہ صفت بیان فرمائی ہے:

’’‎(اِن کا اقرار ہے کہ) ہم اللہ کے پیغمبر وں میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور اِنھوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے سنا اور سر اطاعت جھکا دیا۔‘‘ (البقرہ 2:  285)

‎‎4۔ ’’بھر دو جھولی میری یا محمد‘‘

‎قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ  انسانوں کے لیے  رزق اور مال و اولاد کے فیصلے اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ طوفانوں، زلزلوں اور آفات  سے لے کر بارش برسانے تک کے تمام امور اللہ کے اذن پر منحصر ہیں۔ گویا تمام کائنات کی عنان تنہا اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ان معاملات میں نہ کوئی  اُس کا ہم سر ہے، نہ شریک و سہیم۔  لہٰذا سیدنا آدم سے لے کر محمد رسول اللہ تک، سب اُسی کے بندے ہیں، اُسی کے محتاج ہیں اور اُسی کی عنایات کے طلب گار ہیں۔ وہ  اُسی کے منشا کو پورا کرنے کے لیے جیتے رہے ہیں اور اسی کی رحمت کی امید میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ ارشاد ہوا ہے:

’’‎تم اعلان  کرو،  (اے پیغمبر)، حقیقت یہ ہے کہ اللہ یکتا ہے۔ ‎اللہ سب کا سہارا  ہے۔ ‎وہ نہ باپ ہے، نہ بیٹا ‎اور نہ اُس کا کوئی ہم سر ہے۔‘‘ (الاخلاص 112: 1-4)

‎‎5۔ ’’حاضر و ناظر‘‘

‎رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے، انسان کی حیثیت میں پیغمبر منتخب ہوئے اور اپنا مشن پورا کر کے انسانوں ہی کی طرح دنیا سے رخصت ہوگئے۔قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ خدا کے نیک بندے جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ان پر عنایتوں کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ وہ عنایتیں کیسی ہوتی ہیں، انسانی عقل اُس کا شعور نہیں رکھتی۔کیا وہ دنیا کے معاملات کا اب بھی جائزہ لے رہے ہیں؟ ہمیں یہاں دیکھتے اور اپنے ذکر کی مجالس میں شریک ہوتے ہیں؟  یہ سب دعوے ایسے ہیں، جن کی دلیل کسی دینی ماخذ میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ان امور کے حوالے سے ہم کوئی بھی دعویٰ اللہ تعالیٰ کی تصویب کے بغیر محض اپنے تخیل سے نہیں کر سکتے۔

‎6۔ ’’مجرم ہوں جہاں بھر کا، محشر میں بچا لینا‘‘

‎مغفرت کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، محشر میں بچانے اور سزا دینے کا اختیار بھی اُسی کو حاصل ہے ۔سورۂ زمر میں ارشاد ہوا ہے:

’’کیا انھوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کو شفیع بنا رکھا ہے؟ ان سے کہو، کیا وہ شفاعت کریں گے خواہ ان کے لیے اختیار میں کچھ نہ ہو اور وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟کہہ دو کہ شفاعت تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کی ہے۔پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘(آیت 39: 43-44)

‎چنانچہ ’’جہاں بھر کا مجرم‘‘بننے کی سزا سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔وہاں اللہ انصاف کریں گے اور انھوں نے یہ بھی بیان کردیا ہے کہ :

’’…اس دن، جب وہی بولیں گے جنھیں رحمٰن اجازت دے اور وہ صحیح بات کہیں۔‘‘

(النبا 78: 38)

‎لہٰذا نبی کی شفاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجرم کو بچاکر انعام یافتہ بنا دیا جائے۔ شفاعت بندے کی طرف سے توبہ، رجوع، ازالے اور استغفار کے بعد خدا کی بارگاہ میں عذر قبول کرنے کی درخواست ہے اور اللہ کے ہاں ایسی درخواستیں میرٹ پر قبول یا رد ہوتی ہیں۔

(ستمبر 2023ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

Leave a comment