Skip to content Skip to footer

عدت میں نکاح: جناب جاوید احمد غامدی کا موقف

محمد حسن الیاس

عدت میں نکاح: جناب جاوید احمد غامدی کا موقف

شریعت کی اصطلاح میں ’عدت‘ سے مراد وہ مدت  ہے،جس میں بیوی  شوہر  کی طرف سے طلاق  یا اُس کی وفات کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح نہیں کر سکتی۔ یہ مدت اِس لیے مقرر کی ہے کہ عورت کے پیٹ کی صورت حال پوری طرح واضح ہو جائے اور  بچے کے نسب کا معاملہ مشتبہ نہ رہے۔  

طلاق کی صورت میں یہ مدت تین حیض ہے۔ سورۂ بقرہ میں   ارشاد ہے:

’’اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار کرائیں ۔ اور اگر وہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں تو اُن کے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ اللہ نے اُن کے پیٹ میں پیدا کیا ہے، اُسے چھپائیں ۔ ‘‘ (2: 228)

  بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔    فرمایا ہے:

’’اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑیں تو وہ بھی اپنے آپ کو چار مہینے دس دن انتظار کرائیں ۔ پھر جب اُن کی عدت پوری ہو جائے تو اپنے حق میں دستور کے مطابق جو کچھ وہ کریں ، اُس کا تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘   (البقرۃ 2: 234)

 یہ اضافہ اِس لیے ہوا ہے کہ  مطلقہ کو تو ایسے طہر میں طلا ق دینے کی ہدایت  ہے، جس میں زن و شو  کا تعلق قائم نہ  ہوا ہو، مگرشوہر کی وفات کی صورت میں چونکہ یہ ضابطہ بنانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا  احتیاطاً   بیوہ کی عدت مطلقہ کے مقابلے میں ایک ماہ دس دن زیادہ مقرر کی ہے۔

عورت اگر حیض سے مایوس  ہو چکی ہو یا   حیض کی عمر کو پہنچنے  کے باوجود  اسے حیض نہ آئے تو  اُس  کی عدت تین ماہ ہے۔ حاملہ  کی عدت وضع  حمل ہے۔جہاں تک اُس عورت کا معاملہ ہے، جس سے نکاح کے بعد  زن و شو کا تعلق قائم نہیں ہوا تو  اُس کے لیے عدت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ ارشاد ہے:

’’ایمان والو، (اِس لیے کہ)جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرتے ہو، پھر ہاتھ لگانے سے پہلے اُن کو طلاق دے دیتے ہو تو اُن پر تمھاری خاطر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کا تم شمار کرو گے۔‘‘ (الاحزاب 33 :49)

اِس تفصیل سے واضح ہے کہ عدت کا سبب  استبراے رحم ہے۔  یہی وجہ ہے کہ حاملہ کی عدت بچے کی ولادت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے اور ایسی منکوحہ جس کی رخصتی نہ ہوئی ہو، اُس کے لیے کوئی عدت نہیں ہے۔

 عدت کے بارے میں یہ قرآنِ مجید کے احکام ہیں۔ اِن کی نوعیت   اللہ کی ابدی شریعت  کی ہے، جس کی تعمیل لازم ہے۔ اِن سے انحراف احکام الہٰی کی خلاف ورزی کے مترادف ہےاور عنداللہ  مستوجب سزا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان  کو اِن کی پابندی کرنی چاہیے اور اِن سے روگردانی کی راہ نہیں ڈھونڈنی چاہیے۔

اِن کے مطالعے سے یہ بھی  واضح ہے کہ اِن  کی خلاف ورزی کے معاملات میں شریعت نے خاموشی اختیار کی ہے۔  جب کہ  انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ   بعض اوقات غفلت اورکم علمی کے باعث یا   غصے، اشتعال اور  ردِ عمل میں آ کر حدودِ الہٰی  کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو جاتے  ہیں اور عدت کے دوران میں نکاح کا اقدام کر لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں  یہ سوال پیدا ہوتا  ہےکہ شریعت کے حکم کی خلاف ورزی پر مبنی ایسے نکاح کی قانونی حیثیت  کیا ہو گی اور اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عملی مسائل سے کیسے نمٹا جائے گا ؟

کیا ایسےنکاح کوکالعدم قرار دیا جائے گا؟ اگر ایسا کیا  جاتا ہے تو پھر عدت کی تکمیل کی کیا صورت ہو گی؟  حمل کی صورت میں بچے  کے نسب  کا کیسے تعین ہو گا؟ نگہداشت کے معاملات کس کی ذمہ داری ہوں گے؟

کیا ایسے نکاح کو جائز قرار دیا جائے گا؟ اِس صورت میں خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کیا کوئی سزا مقرر کی جائے گی؟  اگر عورت حاملہ ہو گی تو اُس کے حمل کو سابقہ شوہر سےمنسوب سمجھا جائے گا یا نئے شوہر سے؟

یہ اور اِس نوعیت کے  متعدد سوالات  اکثر و بیش تر سامنے آتے ہیں۔ اِن کے حل کے لیے مسلمانوں کے علما اور محققین  اپنے علم و فہم کے مطابق دین کی اصولی رہنمائی میں آرا پیش کرتے  ہیں۔ لوگ اُن میں سے جن پر مطمئن ہوں، اُنھیں  اپنی صواب دید سے اختیار کر لیتے ہیں۔  حکومتیں بھی اُن میں سے بعض کا انتخاب کر کے اُنھیں ملکی قانون کی صورت دے دیتی ہیں۔   شریعت کے کسی اطلاقی مسئلے میں   اگر  قرآن و سنت خاموش ہوں تو دین کے منشا تک پہنچنے کے لیے یہی طریقہ مسلم  ہے۔   اِسی  کو اصطلاح میں اجتہاد سے تعبیر کیا  جاتا ہے۔  ہمارے جلیل القدر فقہا کا بیش تر کام اِسی دائرے سے متعلق ہے۔

  مذکورہ  مسئلے میں  فقہاے احناف کی اجتہادی راے یہ ہے کہ  عدت کے دوران میں کیے گئے  نکاح کے بعد اگر زن و شو کا تعلق قائم  نہ ہو تو نکاح کو باطل سمجھا جائے گا  گویا نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔ زن و شو کا تعلق قائم ہو گیا ہو تو نکاح باطل نہیں، بلکہ فاسد  قرار پائے گا۔یعنی نکاح کو منعقد مان کر علیحدگی کرا دی جائے گی۔ اس صورت میں زن و شو کے تعلق کے باعث، شوہر پر  مہر بھی واجب ہوگا۔ استبراے رحم کےلیے عدت گزارنا  ضروری  ہو گا اوراس دوران میں نان  و نفقہ کی ذمہ داری   شوہر پرعائد ہو گی۔

استادِ مکرم جناب جاوید احمد غامدی  کا موقف یہ ہے کہ  عدت کے دوران میں   نکاح کرنا اللہ کے حکم کی  خلاف ورزی ہے، لہٰذا یہ صریح  گناہ ہے اور اِس کا مرتکب  قیامت میں جواب دہ ہو گا۔   چنانچہ اِس کا ارتکاب کرنے والوں کو نادم ہونا چاہیے اور اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔  معاشرے  کو ایسی روایات قائم کرنی چاہییں،جو  لوگوں میں اِس طرح کی خلاف ورزیوں کی حوصلہ شکنی کریں۔  مقصد یہ ہے کہ شرعی قانون کی حرمت کسی حال میں پامال نہ ہو۔ اُس  کی شان پوری طرح قائم رہے اور لوگوں کو احساس ہو کہ ایسی خلاف ورزی کوئی معمولی بات نہیں ، بلکہ صریح جرم ہے۔

 جہاں تک اِس  نکاح کے قانونی   پہلو کا تعلق  ہے تو  اِسے  منعقد سمجھنا چاہیے ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ گزرے ہوئے وقت میں کیا گیا ایک عملی اقدام ہے،جو  امرِ واقعی کی صورت میں سامنے آتاہے۔ نہ اِسے  لوٹایا جا سکتا ہے اور نہ ختم کیا جا سکتا ہے۔ 

  ایسے نکاح کے نتیجے میں نزاعات کا پیدا ہو جانا بالکل بدیہی ہے۔ اِن میں  بہتر یہ ہے کہ اگر خلاف ورزی کا  معاملہ  خاندانوں   میں محدود ہے  تو  اُسے خاندانی سطح ہی پر حل کرنا چاہیے۔  عدالت میں لے جانے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کی حیثیتِ عرفی مجروح  ہونے سے محفوظ رہے۔  اِس مقصد کے لیے خاندان کے  بزرگ اور معتبر افراد اپنا کردار ادا کریں  اور علما  و فقہا کی آرا میں سے جس پر اطمینان ہو، اُسے اختیار کر لیں۔  اِس موقع پر  ضروری ہے کہ  مسئلے کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے۔  یعنی یہ دیکھنا چاہیے کہ عدت کے دوران میں نکاح کرنے والی  کی عمر کیا ہے، عدت مکمل ہونے میں کتنا عرصہ باقی تھا کہ نکاح کر لیا گیا،  کیا سابقہ شوہر کے گھر میں عدت گزارنے میں کوئی  مشکل تو درپیش  نہیں تھی، پھر معاملہ جب فیصلے کے لیے آیا ہے تو نکاح کو کتنا عرصہ بیت  گیا ہے، اِس دوران میں زن و شو کا تعلق قائم ہوا ہے یا نہیں ہوا، اگر پہلے شوہر سے اولاد ہے تو اُس کی کیا نوعیت ہے،  منکوحہ کو خلاف ورزی کی سنگینی کا کتنا احساس ہے؟ یہ اور اِس طرح کے تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور   دین و شریعت اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔

اِس کے برعکس اگر   کوئی فریق  معاملے کو عدالت میں  لے گیا ہے تو پھر تمام تر اختیار عدالت کے پاس چلا جائے گا۔ اِس موقع پر عدالت ملکی قانون کو دیکھے گی۔ اگر کسی فقہی راے کو ملکی قانون کی حیثیت حاصل ہے تو پھر عدالت کو  اُسی کے مطابق فیصلہ دینا ہو گا۔   لیکن  اگر وہ  کسی فقہ کی پابند نہیں ہے تو تمام حالات کا جائزہ لے کر خود بھی کوئی فیصلہ کر سکتی ہے یا  اپنی صواب دید سے کسی فقہی راے کو بھی   نافذ  کر سکتی ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــ

گذشتہ  برس ایک نشست میں ،راقم نے  یہی سوال  استاذ گرامی سے پوچھا تو   اُنھوں نے جو  راے اجمال سے  پیش کی اُس پر ایک فاضل محقق نے چند اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اب ہم یہاں وہ اعتراضات  نقل کر کے اُس پر اپنی گزارشات پیش کریں گے:

وہ لکھتے ہیں:

’’غامدی صاحب کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ عدت کے دوران میں نکاح کی ممانعت کے متعلق کوئی خاص شرعی حکم نہیں ہے…پھر ’ یَتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ‘ کامفہوم کیا ہے؟ کیا غامدی صاحب  نے اِس پر غور کیا ہے کہ اگر عدت کے دوران میں خاتون کو کسی اور مرد سے نکاح کی اجازت دی جائے تو کتنی نصوص بالکل بے معنی ہوجاتی ہیں؟‘‘

اِس پر عرض ہے کہ فاضل محقق  کو غامدی صاحب کا موقف سمجھنے میں آخری درجے کا تسامح ہوا ہے۔ اِس ضمن میں غامدی صاحب کا موقف جاننے  کے لیے عدت کا قانون اور اُس کی تمام تفصیلات اُن کی کتاب ’’میزان‘‘ میں میں دیکھ  لی جا سکتی ہیں۔ زیر بحث گفتگو میں بھی اُنھوں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی  کہ عدت کے دوران میں نکاح  شریعت میں  ممنوع نہیں ،بلکہ اُنھوں نے تو اِسے بڑی خلاف ورزی اور گناہ کا عمل قرار دیا ہے۔ غامدی صاحب سے دراصل  اِس  کی خلاف ورزی کی صورت میں  ازالے پر سوال کیا گیا تھا ،اِس پر اُنھوں نے  اُس  خلاف ورزی کے بعد  کے معاملے  پر حکم لگانے کو اجتہادی  معاملہ قرار دیا تھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی عالم  بیان کرے کہ   زندگی بھر   کی نمازوں  کی  قضا ادا کرنے کا کوئی طریقہ شریعت میں مقرر نہیں  کیا گیا اور اِس بات سے یہ نتیجہ نکال لیا  جائے کہ اُس عالم کے نزدیک نماز قضا کرنا کوئی جرم ہی نہیں۔ لہٰذا غامدی صاحب کی نسبت سے یہ کہنا   سر تا سر غلط فہمی پر مبنی ہے۔

اِس کے بعد فاضل محقق  احناف کے ہاں عدت کے دوران میں نکاح پر مختلف احکام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’غامدی صاحب نے کہا کہ احناف ایسے نکاح کو باطل، جب کہ دیگر فقہا اسے فاسد کہتے ہیں … غامدی صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ دیگر فقہا کی بہ نسبت احناف کے ہاں اس معاملے میں سختی زیادہ پائی جاتی ہے، جب کہ حقیقت میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔‘‘

اِس پر گزارش ہے کہ غامدی صاحب اپنی عمومی گفتگوؤں میں فقہی مواقف کی تفصیل بیان نہیں کرتے، بلکہ  زیر بحث سوال پر اپنا موقف سامنے رکھ دیتے ہیں۔یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنھوں نے راقم کی اِس بات پر کہ عموماً ایسے نکاح کو فاسد کہا جاتا ہے،تصحیح کرتے ہوئے بتایا کہ فقہا اِسے عموماً فاسد نہیں، بلکہ باطل قرار دیتے ہیں۔ فقہاء احناف کے ہاں باطل قرار دیے جانے کے کیا حدود و شرائط ہیں، اُن سے  یہ پوچھا گیا تھا اور نہ اُس وقت  زیر بحث تھا ۔چنانچہ اِس موقع پر اُن کے پیش نظر ہی نہیں تھا کہ وہ   دیگر فقہا کا کوئی مذہب بیان کریں  اور   احناف کو اُن کے مقابل میں رکھ کر کوئی تبصرہ کریں کہ اُن کا موقف اِس باب میں دوسروں سے زیادہ سخت ہے۔ غامدی صاحب  نے صرف اس بات کی وضاحت کردی  کہ فقہا اسے بالعموم باطل سمجھتے ہیں۔

اِس کے بعد فاضل محقق  غامدی صاحب کی اِس بات پر تنقید کرتے ہیں کہ اگر معاملہ انفرادی نوعیت کا ہے تو خاندان کی سطح پر ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اگر کسی نے خنزیر کا گوشت فروخت کیا، تو یہ عقد باطل ہے کیونکہ خنزیر کا گوشت مال ہی نہیں ہے جسے بیچا جاسکے۔ اسی طرح عدت کے دوران میں نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا کیونکہ شریعت نے اِس سے روکا ہے اور اِس وجہ سے عدت گزرنے کے بعد نیا نکاح کرنا لازم ہوجاتا ہے…۔‘‘

یہاں فاضل محقق نے غامدی صاحب کی اس بات پر اعتراض کیا ہےکہ نکاح قائم رکھتے ہوئے اس غلطی کے ازالے کا کوئی امکان سرے سے موجود ہی نہیں! اپنے اِس دعوے کی تائید میں  اُنھوں نے مثال  پیش کی ہے کہ سؤر کی بیع منعقد ہی نہیں ہوسکتی، اِس لیے کہ فقہا کی نظر میں وہ مال ہی نہیں۔ ہمارے نزدیک یہ قیاس مع الفارق ہے۔کسی مبیع کی واپسی اور  نکاح کے ذریعے  سے پیدا ہونے والی انسانی رشتوں  کی حرمتوں کو یکسر معاشرے کی سطح پر  کالعدم قرار دے دینا، اِن دونوں  صورتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔  اگر عدت کے دوران میں نکاح  سرے سے ہی باطل ہے تو پھر فقہا کے اُن تمام فیصلوں کی کیا بنیاد ہے جو زن و شو کے تعلق کے بعد عدت کا لزوم، عدت کے دوران میں نان و نفقہ کی ذمے داری اور اولاد کی صورت میں نسب کا ثبوت مان رہے ہیں۔اگر ایک معاملہ اپنی کوئی بنیاد ہی نہیں رکھتا تو یہ سب کس اصول پر ہو رہا ہے؟ چنانچہ یہ واضح ہوتا ہے کہ صورت حال کی رعایت سے فقہا بھی اس باب میں مختلف ہدایات دے رہے ہیں۔یہی چیز اس معاملے کو اجتہادی بناتی ہے۔

غامدی صاحب بھی اسی اصول پر ازالے کے چند امکانات تجویز کر رہے تھے،چونکہ اِس باب میں ازالے کی کوئی متعین شکل پر قرآن و سنت نے ہمیں پابند نہیں کیا، اِس لیے غامدی صاحب نے عدت میں نکاح کے اِسی گناہ کی شناعت کے باعث یہ بیان کیا کہ اُنھیں چاہیے کہ وہ توبہ کریں اور اُس غلطی کا ازالہ کریں، حقیقت میں وہ زنا کے تعلق میں نہیں، لہٰذا وہ اِس غلطی کو ظاہر میں بھی درست کرلیں اور عدت کے بعد صحیح وقت پر ایک مرتبہ پھر سے ایجاب و قبول کرلیں، اِس کے ساتھ ساتھ غامدی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ عدالتیں اس معاملے میں اس کے علاوہ کوئی حکم دینا چاہیں تو دے سکتی ہیں۔کیونکہ ازالے کا معاملہ اور طریقۂ کار اصلاً ’’اجتہاد‘‘ پر مبنی ہے، منصوص نہیں ہے۔ لہٰذا اب اعتراض اور نقد کا دائرۂ اجتہادی اطلاق کی صحت پر ہوگا۔ یہی اجتہاد ی اطلاق  ہے  جو ہمارے فقہا بھی کر رہے ہیں۔

اس کے بعد فاضل محقق راقم کے  ایک تبصرے پر اعتراض کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:

’’چونکہ قانوناً یہ عقد غلط ہوا ہے، اس لیے مرد اور عورت کو باقاعدہ میاں بیوی نہیں قرار دیا جا سکتا اور ان میں تفریق لازم ہے، لیکن اِس تفریق کو ’’فسخ‘‘ نہیں کہیں گے۔ حسن الیاس صاحب نے اسے فسخ کہا اور غامدی صاحب بھی اِس پر تبصرہ کیے بغیر آگے بڑھ گئے۔ یہ فسخ نہیں، بلکہ تفریق ہے۔ … کیونکہ قانوناً تو اس تعلق کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ ایک nullity ہے۔‘‘

یہاں راقم کی اس بات پر اعتراض کیا ہےکہ جب غامدی صاحب نے بیان کیا کہ فقہا تو نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں تواِس پر میں نے عرض کیا: یعنی ’’نکاح کو فسخ کردیتے ہیں‘‘، فاضل محقق  کا کہنا ہے کہ یہاں فسخ کے لفظ کا استعمال درست نہیں، بلکہ تفریق کہنا چاہیے، اِس لیے کہ فسخ کا مطلب ہو گا کہ نکاح تو تسلیم کرلیا گیا ہے جب کہ فقہا کے نزدیک تو نکاح ہوا ہی نہیں، لہٰذا کوئی بھی فریق بغیرطلاق کے الگ ہو سکتا ہے۔ہمارے نزدیک یہ بات دو وجوہ سے  درست نہیں۔پہلی یہ کہ  فقہا بعض صورتوں میں، مثلاً:  زن و شو کا تعلق قائم ہوگیا ہو یا حمل ٹھیر جائے یا اولاد کی موجودگی پر عدت گزارنے کو لازم قرار دیتے، اولاد کا نسب  ثابت مانتے  اور اُس رشتے کو زنا بھی قرار نہیں دیتے۔ اور مرد پر ایسے نکاح کے خاتمے پر عدت کے دوران میں نان و نفقہ کی ذمے داری بھی ڈالتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے الفاظ میں: ’’قانوناً تو اِس تعلق کی کوئی حیثیت ہی  نہیں ہے اور یہ ایک nullity ہے۔تو پھر یہ سب کرنے کی ضرورت کیا ہے؟گویا فقہا بھی اِس رشتے کو حکماً قانونی مان کرہی علیحدگی کروا رہے ہیں،چنانچہ حقیقتاً یہ فسخ نکاح ہی ہے۔فسخ نکاح کا مطلب ہوتا ہے:رشتۂ نکاح کو توڑدینا، ختم کردینا۔ اس صورتحال میں یہی ہو رہا ہے۔ تاہم فاضل محقق کو زیادہ موزوں ’’تفریق‘‘ کی اصطلاح معلوم ہوتی ہے،تو وہ اسے اختیار کرسکتے ہیں۔

(جنوری 2024ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

Leave a comment