Skip to content Skip to footer

غامدی صاحب سے ہمارا اختلاف

محمد حسن الیاس

غامدی صاحب سے ہمارا اختلاف

یہ سوال  مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو غامدی صاحب کی کسی راے سے اختلاف بھی ہوتاہے؟

میں اس کے جواب میں  ہمیشہ دو باتیں عرض کرتا ہوں:

پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہم جیسے لوگوں کو ایک متوسط ذہن کے ساتھ پیدا کیا ہوتا ہے۔ہم کسی نئے نظریے کے خالق بننے کی صلاحیت لے کر دنیا میں نہیں آتے۔ہم دستیاب نظریات ہی میں سے کسی نظریےکا انتخاب کرتے ہیں۔ اِس انتخاب کے دوران میں ہم سوال بھی قائم کرتے  ہیں،  اعتراض بھی اٹھاتے ہیں، متردد بھی ہوتے ہیں، اختلاف بھی کرتے ہیں، مگر یہ سارا عمل فہم کے دائرے سے متعلق ہوتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں بعض اوقات ہم اُس نظریے  کو  قبول کرتے ہیں اور بعض اوقات رد کرتے ہیں۔اگر ہم علم کے سچے طالب ہیں تو ہمارا یہ طرز عمل عمر بھر قائم رہتا ہے۔

میں نے جب اپنی علمی زندگی کا آغاز کیا  توروایتی تعبیر دین کی بہت سی باتوں پر  ترددپیدا ہوا ۔ کئی سوالات مرتب ہوئے۔ اُن کے  جواب روایتی تعبیر  کے اعلیٰ دماغوں کی جانب سے  بھی سامنے آئے اور غامدی صاحب  کے فکر  کی جانب سے  بھی۔میں نے اپنی عقل اور شعور کی روشنی میں تقابلی طریقے پر دونوں کو سمجھنے کے سفر کا آغاز کیا۔ خود اس عمل سے گزرنے میں سالوں لگ گئے، ایک لمبا عرصہ غامدی صاحب کے زاویۂ نظر سے استدلال کی بنیادیں سمجھنے میں صرف ہوا، تب جا کر اس کے اصولی مقدمات واضح ہوئے اور ان سے اتفاق پیدا ہوا۔اب اگر غامدی صاحب کی فکر میں کسی چیز پر تردد،ابہام یا سوال پیدا ہوتا ہے تو لازماً وہی عمل ہوگا۔ یا  غامدی صاحب جیسے بڑے لوگ اسے سمجھا کر مطمئن کردیں گے یا پھر کوئی دوسرا بڑا ذہن کوئی اور راہ دکھا دے گا تو اسے سمجھنے کے عمل کا آغاز ہوجائے گا۔

ہماری سطح کے لوگوں میں نہ روایتی تعبیر دین سے اختلاف پیدا کر کے کوئی متبادل فکر دینے کی اہلیت یا صلاحیت  ہے، نہ غامدی صاحب کے نظام فکر پر تنقید اور اختلاف کرکے اس کا سقم واضح کرنا ہمارے بس کی بات ہے۔ چنانچہ ہم جیسے لوگ کسی بھی فکر کو اس کے اصولوں سے اتفاق کی روشنی میں اپناتے اور پھر اس میں کھڑے ہوکر غور و فکر اور اتفاق و اختلاف  کے سلسلے کو جاری رکھتے ہیں۔ یہی ہماری صلاحتیوں کاحاصل ہوتا ہے۔

دوسرا پہلو خالصتاً انسانی ہے۔ اس نظر سے دیکھیں تو روزانہ غامدی صاحب کی بھی کئی باتیں ابتدا میں ایسے ہی سمجھ میں نہیں آتیں، جیسے روایتی تعبیر دین کی نہیں آتی تھیں یا آتی ہیں،چنانچہ وقتی نوعیت کا عدم اتفاق کہیے یا الجھن، پیدا ہوجاتی ہے۔اس پر شب و روز بحثیں ہوتی ہیں،پیشکش کی بہتری کے لیے ذہن میں کئی تجاویز آتی ہیں، اس عمل کو کسی کے فکر سے اختلاف کے بجاے، اصولوں کے اطلاق کی مشق اور کسی بڑے فکر میں تعمق پیدا کرنے کا سفر قرار دینا چاہیے۔

تاہم ہم جیسے لوگ اس عدم اتفاق اور الجھنوں کو گوارا کر کے تضادات میں نہیں جی پاتے، بلکہ اسے رفع کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، کیونکہ ہم کسی بھی مکتب فکر کو اس وقت تک نہیں اپنا سکتے جب تک وہ اصول سے اطلاق تک سدید نہ ہو  اور تضاد سے پاک نہ ہو۔

یہ معاملہ الحمد للہ صبح آنکھ کھلنے سے لے کر رات سونے تک جاری رہتا ہے۔غامدی صاحب سے اس نوعیت کے استفادے کا تعلق کم و بیش پندرہ سال پہلے شروع ہوا اور ہنوز جاری ہے۔ یہ سلسلہ جس دن رک گیا تو دو ہی صورتیں ہوں گی:یا  ہم  غامدی صاحب کے فکر کے مقلدِ محض بن جائیں گے یا پھر  خود کو اُنھی کی طرح اصول سے اطلاق تک ایک مستحکم نقطۂ نظر اور منظم مکتب فکر قائم کرنے والی شخصیت تصور کرنے لگیں  گے۔دعا ہے کہ اللہ ہمیں  اِن دونوں درجات سے محفوظ رکھے۔ اس لیے کہ پہلی صورت کا انجام عصبیت اور فرقہ بندی ہے، جو سراسر فساد ہےاور دوسری صورت کا نتیجہ بلا استعداد’’مجتہد‘‘ بننا ہے، جو سراسر جہالت ہے۔ یہ دونوں نتائج علم کے دروازے کو بند کرنے والے ہیں، اس لیے ہم اِن سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

(دسمبر 2023ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

Leave a comment