فقہ حنفی میں “واجب” کا تصور
(محمد حسن الیاس)
اسلامی شریعت میں اللہ تعالیٰ کے احکام نہایت قطعی، صریح اور ہر طرح کے ابہام سے پاک ہوتے ہیں۔ یہی وہ غیر متبدل ہدایات ہیں جنہیں قرآن نے “آیاتِ محکمات” سے تعبیر کیا ہے، یعنی وہ یقینی اور دو ٹوک احکام جو براہِ راست منشائے الٰہی کا اظہار اور دین کی تشریعی بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔
ان احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر حکم کی نوعیت کو اس زاویے سے دیکھا جائے کہ شارع نے اسے کس درجے میں طلب کیا ہے: آیا وہ قطعی لزوم کا حامل ہے، جیسے نماز، جو ہر مکلف مسلمان پر فرض ہے، یا وہ ایسے افعال پر مشتمل ہے جن کا تعلق استحباب اور اختیار سے ہے، جیسے صفا و مروہ کی سعی، جو باعثِ اجر تو ہے، مگر ترک پر کوئی مواخذہ مترتب نہیں ہوتا۔
اسی اصول کی روشنی میں نفل اعمال کی نوعیت بھی متعین کی گئی ہے، جو لزوم کے درجے میں نہیں آتے، مگر اجر و ثواب کا ذریعہ بنتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
‘اور جس نے اپنے شوق سے نیکی کا کوئی کام کیا، اللہ اُس کی قدر کرنے والا ہے’ (البقرہ: 158)
یہ اس امر کا صریح اعلان ہے کہ اختیاری نیکی بھی خدا کے قرب کا ذریعے ہے، اگرچہ اس کا تقاضا لزوم کی سطح پر نہیں پہنچتا۔
اس کے برخلاف، احناف نے فقہی اجتہاد کی بنیاد پر فرض اور نفل کے درمیان ایک تیسرا درجہ متعین کیا ہے جسے وہ ‘واجب’ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک بعض ایسے اعمال ہیں جو شارع کے ہاں بطورِ تاکید مطلوب تو ہیں، لیکن ان کا ثبوت قطعی نص کے بجائے ظنی دلیل سے حاصل ہوتا ہے۔
چونکہ ان اعمال کی حیثیت نفل کے درجے سے بلند اور فرض کے درجے سے کم ہے، اس لیے احناف نے ان کے لیے ایک مستقل درجہ مقرر کیا۔ یہ درجہ بندی ان کے اصولی تجزیات کا ایک نمایاں پہلو ہے، جس کے ذریعے وہ شرعی تقاضوں کے مختلف مدارج کو منضبط کرنا چاہتے ہیں۔
احناف کو اس اجتہادی تقسیم کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب بعض ایسے اہم دینی اعمال سامنے آئے، جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوام اور التزام کے ساتھ انجام دیا، لیکن وہ امت تک تواتر کے بجائے کسی ظنی ذریعے سے منتقل ہوئے۔
ان کے نزدیک ایسے اعمال کو صرف نفل کے درجے میں رکھنا ان کی دینی اہمیت کے منافی تھا۔ چنانچہ ان پر شارع کی تاکید اور عملی التزام کو ظاہر کرنے کے لیے ‘واجب’ کی اصطلاح اختیار کی گئی، تاکہ ان افعال کو نہ تو قطعی دلیل کے بغیر فرض قرار دیا جائے اور نہ ہی محض نفل کہہ کر ان کے وزن کو کم کیا جائے۔
بعد ازاں، احناف نے ‘واجب’ کو اصولی طور پر فرض سے ایک الگ درجہ تسلیم کیا۔ ان کے نزدیک چونکہ اس کا ثبوت ظنی ماخذ سے ہوتا ہے، اس لیے اس پر اعتقاد رکھنا تو لازم نہیں، لیکن اس کا ترک بھی روا نہیں۔ یوں واجب ایسے افعال پر مشتمل ہوتا ہے جن پر عمل شرعاً لازم ہے، لیکن ان کے ترک سے نہ عبادت باطل ہوتی ہے اور نہ ایمان پر کوئی اثر پڑتا ہے۔
امام سرخسی علیہ رحمہ واجب کی یہی تعریف پیش کرتے ہیں:
“فأما الواجب فهو: ما يكون لازم الأداء شرعًا ولازم الترك فيما يرجع إلى الحل والحرمة من غير أن يكون دليله موجبًا للعلم قطعًا”
یعنی: “واجب وہ چیز ہے جس کا ادا کرنا شرعاً لازم ہے اور جس کا ترک کرنا حلت و حرمت کے اعتبار سے ممنوع ہے، لیکن اس کا ثبوت کسی ایسے ذریعے سے نہیں ہوتا جو قطعی علم کا موجب ہو۔”
احناف کے اس اصولی تصور کی عملی تطبیق بھی فقہی ابواب میں نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، نماز میں قراءت کو وہ فرض قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کا حکم قطعی قرآنی نص سے ثابت ہے، جبکہ سورۂ فاتحہ کی قراءت کو واجب کہتے ہیں، کیونکہ وہ ان کے نزدیک خبر واحد پر مبنی ہے۔ اسی اصول کے تحت وہ اس بات کے قائل ہیں کہ سورۂ فاتحہ کا ترک نماز کو باطل نہیں کرتا، البتہ عمل کے کمال پر اثر انداز ضرور ہوتا ہے۔
اسی قبیل کی ایک اور مثال داڑھی ہے، جسے احناف واجب قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ اس کے اثبات میں وارد روایات قطعی نہیں، لیکن ان میں موجود تاکید کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے نفل کے بجائے واجب کے درجے میں رکھا گیا ہے، تاکہ اس کی اہمیت اجاگر ہو سکے۔
ہماری طالب علمانہ رائے میں، احناف کے اثباتِ حکم کا یہ پورا تصور اصولی سطح پر متعدد سوالات کو جنم دیتا ہے۔ بنیادی اشکال یہ ہے کہ کسی شرعی حکم کی نوعیت کہ وہ فرض ہے، واجب یا نفل، نہ تو فہم و قیاس کی بنیاد پر متعین کی جا سکتی ہے، اور نہ ہی محض اس بناء پر کہ وہ حکم قطعی یا ظنی ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے۔ نقل کی نوعیت، خواہ وہ کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو، کسی حکم کی شرعی حیثیت کا مستقل معیار نہیں بن سکتی۔
دینی احکام کی نوعیت کا تعین صرف اور صرف شارع ، یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ تشریع سے ہوتا ہے۔ یہی وہ واحد ہستی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار عطا فرمایا کہ وہ کسی قول یا فعل کو فرض، نفل یا مستحب کے درجے میں بیان کریں۔
لہٰذا کسی عمل پر صرف تاکید، دوام یا عمومی التزام کی بنیاد پر وجوب کا درجہ عائد کرنا، جبکہ شارع کی طرف سے اس پر کوئی صراحت نہ ہو، تشریع میں مداخلت کے مترادف ہے۔ امام شاطبی اسی اصول کو یوں بیان کرتے ہیں:
“فليس لغير الشارع أن يجعل شيئاً من ذلك فرضاً أو نفلاً”
‘شارع کے سوا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی عمل کو فرض یا نفل قرار دے’ (الاعتصام، ج2، ص354)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے تمام احکام کو قرآن و سنت کی صورت میں انتہائی وضاحت، اہتمام اور قطعیت کے ساتھ امت تک منتقل فرمایا، اور ہر حکم کی نوعیت اُس وقت ہی خود متعین فرما دی۔ جن اعمال کو آپ نے لازم قرار دیا، وہ بحکمِ ضرورت امت کے اجماع اور تواترِ عملی سے منتقل ہوئے، مگر یہ اجماع و تواتر ان کے وجوب کی دلیل نہیں، بلکہ اس کا طبعی نتیجہ ہیں۔ اصل دلیل وہ تشریعی ارادہ ہے جو قول، فعل یا تقریرِ نبوی سے ظاہر ہوتا ہے۔
یہ کہنا بجا ہے کہ مستقل بالذات احکام قرآن اور سنت کے قطعی ذرائع سے ہم تک اجماع و تواتر کے قطعی ذرائع ہی سے منتقل ہوئے ہیں، لیکن ان ذرائع سے منتقل ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ نقلِ علم کا ذریعہ خود ان احکام کی نوعیت کا تعین بھی کرے گا۔ نقل کی نوعیت محض ایک واسطہ ہے جس کے ذریعے شارع کا فیصلہ ہم تک پہنچتا ہے؛ یہ ذریعہ خود فیصلہ ساز نہیں ہے۔ اصل چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریعی ارادہ ہے، وہی کسی حکم کی شرعی نوعیت کو طے کرتا ہے، نہ کہ وہ طریقہ جس سے وہ حکم ہم تک پہنچا ہے۔
اسی اصول کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اگر کسی دینی عمل کی اہمیت اجاگر کرنا مقصود ہو تو وعظ، نصیحت یا ترغیب کے ذریعے رغبت دلائی جا سکتی ہے، لیکن اس کی بنیاد پر اس عمل کی شرعی حیثیت، یعنی فرض، نفل یا مستحب کو تبدیل کر دینا محلِ نظر ہے۔ ترغیب یا وعظ محض ایک نصیحت آموز ذریعہ ہے، نہ کہ تشریعی تقاضہ۔ اس لیے کسی بھی عمل کی شرعی نوعیت کے تعین میں اصل بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارادہ و منشا ہے جو قول، فعل یا تقریر کے ذریعے ظاہر ہوا ہو۔
اسے ایک مثال سے یوں سمجھا جا سکتا ہے:
قربانی ایک عظیم عبادت ہے، جس کا ذکر قرآن میں ہے، اس کی فضیلت احادیث میں منقول ہے، صحابۂ کرام کا تعامل اس پر گواہ ہے، اور امت کا مسلسل عملی تسلسل اس کی توقیر کا آئینہ دار ہے۔ تاہم، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امت پر واجب قرار نہیں دیا، اس لیے اس کی شرعی حیثیت بہرحال “نفل” ہی رہے گی۔ لیکن یہ محض ایک عام نفل نہیں؛ اس کے پیچھے جو شعائرِ اسلام کی نمائندگی، ایمانی جذبہ، اور سنتِ ابراہیمی سے نسبت ہے، وہ اسے دیگر نوافل پر ایک نمایاں اور بلند مقام عطا کرتی ہے۔
لہٰذا اصولی حقیقت یہ ہے کہ قرآن، سنت اور حدیث میں وارد احکام کی نوعیت—کہ وہ لازم ہیں یا نفل—کسی ظنی مأخذ، تاریخی تسلسل یا ہمارے فہم و تفقہ کی بنیاد پر تبدیل نہیں کی جا سکتی۔
احناف کی جانب سے ‘واجب’ کی درجہ بندی اگرچہ نفل اعمال کی رغبت کی غرض سے فقہی نظم و انضباط کی کوشش ہے، لیکن اصولی سطح پر یہ ایک فکری التباس کو جنم دیتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تشریع کا منصب جو صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے غیر محسوس طریقے سے اجتہادی تعبیرات اور ظنی قرائن کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
بعض اہلِ علم اس تفریق کو نصوص کے داخلی قرائن اور مجموعۂ دلائل سے تعبیر کرتے ہیں، اور یہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات کسی حکم میں شارع کی جانب سے ایسی تاکید محسوس ہوتی ہے جو اسے محض نفل کے درجے میں محدود رکھنے سے روک دیتی ہے۔
یہ بات صرف اُس وقت معتبر ہو سکتی ہے جب یہ تاکید خود نص میں شارع کے ارادے کی صراحت کے طور پر موجود ہو۔ اگر شارع نے کسی عمل کو لازم نہیں ٹھہرایا، تو محض ہمارے فہم یا اجتہادی تاثر کی بنیاد پر اس کی نوعیت کو وجوب میں تبدیل کر دینا، دائرۂ تشریع سے تجاوز کے مترادف ہے۔یہ درست ہے کہ نفلی احکام کی درجہ بندی مختلف قرائن سے جی جاتی رہے گی لیکن یہ تقسیم نفل کو نفل ہی رکھے گی، آگے بڑھ کر لازم نہیں قرار دی جاسکتی۔
اسی طرح یہ رائے بھی دی جاتی ہے کہ جب کسی مسئلے میں مجتہد کو دلائل کے مابین تعارض یا قرائن میں تضاد محسوس ہو، تو وہ احتیاطاً کسی عمل کو “واجب” کے درجے میں رکھ دیتا ہے، جیسا کہ فقہِ حنفی میں “مکروہِ تحریمی” کی اصطلاح اس کی ایک مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔
تاہم یہ توجیہ اصولی لحاظ سے درست محسوس نہیں ہوتی، کیونکہ یہاں “واجب” کی اصطلاح محض احتیاط کے مفہوم میں نہیں، بلکہ ایک قطعی شرعی تقاضے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اور جب اس تقاضے کی بنیاد صرف ظنی دلائل پر ہو، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض مجتہد کا فہم، اپنے طور پر، شرعی وجوب کا ماخذ قرار دیا جا سکتا ہے؟
اسی طرح ایک عمومی تعبیر یہ بھی دی جاتی ہے کہ جب کسی حکم کا ثبوت اگرچہ ظنی ہو، لیکن اس پر دلائل و قرائن کا مجموعہ وجوب کی طرف اشارہ کرے، تو اسے واجب مان لینا قابلِ فہم ہے۔ لیکن یہاں اصل مسئلہ یہی ہے کہ کیا شارع نے خود اس مجموعۂ قرائن کو وجوب کی بنیاد بنایا؟ اگر اس پر کوئی قطعی تصریح موجود نہیں، تو یہ سارا استدلال فقہی فہم کی سطح سے آگے نہیں بڑھتا، اور اس بنیاد پر ایک مستقل شرعی درجہ قائم کرنا محلِ نظر رہتا ہے۔
علاوہ ازیں، اگر ہم یہ تصور اختیار کریں کہ بعض شرعی تقاضے صرف ظنی ذرائع سے اخذ ہو سکتے ہیں اور انھی کی بنیاد پر ان کے وجوب کا فیصلہ بھی ہو، تو یہ اصولی اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ شریعت اپنے کسی لازمی حکم کو ایسی بنیاد پر قائم کرے جس تک ہر مکلف کی رسائی نہ ہو؟ کیا اس صورت میں ایک مسلمان، جسے ان ظنی قرائن تک رسائی حاصل نہ ہو، وجوب کے اس حکم کا مخاطب کہلائے گا؟
یہ تمام نکات دراصل اسی اصولی نتیجے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ احکامِ شریعت کی نوعیت یعنی ان کا فرض، نفل یا مستحب ہونا صرف اس وقت معتبر اور قطعی حیثیت اختیار کرتی ہے جب وہ خود شارع کی طرف سے واضح طور پر متعین ہو۔ شریعت کے احکام کی بنیاد وحیِ الٰہی ہے، اور جب تک شارع کی طرف سے کسی فعل کے لزوم یا استحباب پر دلالت نہ ہو، اس کی نوعیت کو کسی ظنی قرینے یا اجتہادی تاثر کی بنا پر تبدیل کرنا ناقابل فہم ہے۔