فکر اور مزاحمت: اقبال سے انقلاب تک!
فکر کی تاثیر فوری طور پر نمایاں نہیں ہوتی۔ یہ ابتدا میں ایک بے نام اضطراب کی صورت میں جنم لیتی ہے، جو رائج نظامِ فکر پر سوال اٹھاتا ہے۔ یہی خلش وقت کے ساتھ ایک فکری نقش میں ڈھلتی ہے، جو نجات کی سمت اشارہ کرتی ہے۔ پھر یہ فکر اجتماعی شعور کا حصہ بنتی ہے،جو قوموں کے لیے نہ صرف راستہ اور ہدف طے کرتی، بلکہ ان کے اندر تبدیلی کی تمنا کو بھی مہمیز دیتی ہے۔ اور جب یہی شعور عمل میں ڈھلتا ہے، تو اس کی قیمت مزاحمت اور انقلاب کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔
اقبال اسی تدریجی فکری عمل کی ایک روشن مثال ہیں۔ ان کے ہاں تہذیبی زوال محض نوحہ نہیں، ایک سوال ہے؛ ان کے افکار محض خیالات نہیں، بلکہ ایک منظم نظامِ فکر ہیں؛ اور ان کا پیغام محض شاعری نہیں، بلکہ ایک دعوتِ بیداری ہے۔اور ان کا فلسفہ محض کلامی مشق نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر تبدیلی کا مقدمہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اُن کی فکر محض نظریاتی مباحث تک محدود نہ رہی، بلکہ اُن تحریکوں کے لیے بھی ایک فکری محرک بنی جو آج بھی نظمِ عالم کے مقابل اپنے تشخص کی بازیافت کے لیے سرگرم ہیں۔
ہم اگرچہ اس لائحہ عمل کے ناقد ہیں، تاہم سیاسی نتائج سے قطع نظر، یہ فکری تسلسل اپنی جگہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے جو اقبال کی سوچ سے جنم لے کر آج بھی عالمی غلبے کے خلاف مزاحمتی شعور کو نظریاتی بنیاد فراہم کر رہا ہے۔
اسی تسلسل کی ایک اہم مثال 1986 میں تہران یونیورسٹی کی بین الاقوامی اقبال کانفرنس میں اُس وقت کے ایرانی صدر (اور موجودہ رہبر اعلیٰ) سید علی خامنہ ای کا خطاب ہے جس میں انہوں نے علامہ اقبال کو “مشرق کا روشن ستارہ” قرار دیا ۔ان کی تقریر کے لفظ لفظ نے اقبال کی فکر کو ایران کی انقلابی تحریک کی فکری بنیاد قرار دیا۔ خاص طور پر خودی، حریت، اور استعمار دشمنی کے اصولوں کو جو اس فکر کا جوہر ہیں۔
یہ خطاب صرف اقبال کے مقام کا اعتراف نہیں بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب انقلاب فکری بنیاد سے جڑ جائے تو وہ محض وقتی ردعمل نہیں رہتا، بلکہ تہذیبی مزاحمت کا تسلسل بن جاتا ہے۔
ایران کی حالیہ مزاحمت اسی گہرے فکری ردِعمل کی مثال ہے۔ایسا ردِعمل جو مسلم اقوام پر صدیوں کے استعماری جبر، تہذیبی تذلیل اور شناخت کی نفی کے تجربات سے جنم لیتا ہے۔
خامنہ ای صاحب کی سرسید احمد خان کے لائحہ عمل پر تنقید کو بھی اسی زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ جب ایک فکر مغلوبانہ مصلحت کو اپناتی ہے، تو دوسری فکر عزتِ نفس اور شعوری آزادی پر اصرار کرتے ہوئے مزاحمت کو ایک اخلاقی فریضہ بنا دیتی ہے۔
اسی لیے عالمی طاقتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ موجودہ مزاحمت کو محض وقتی یا جذباتی ردعمل نہ سمجھیں۔ یہ اس تاریخی شعور کا اظہار ہے جو اپنی شناخت، اقدار اور تمدن کے تحفظ کے لیے جاگا ہے۔ ایسی مزاحمت کا سامنا صرف طاقت سے نہیں، فہم، مکالمے اور تہذیبی احترام سے ہی ممکن ہے۔
— محمد حسن الیاس