اسلام کی عبادات میں سے نماز اہم ترین عبادت ہے ۔اِس عبادت کے لیے جو اعمال شریعت میں مقرر کیے گئے ہیں، وہ اجماع اور تواتر سے ثابت ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے اہتمام سے اِن اعمال کو ادا کیا اور لوگوں کو تلقین فرمائی کہ نماز اِس طرح پڑھو ،جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔اِس کے اوقات اور اعمال متعین ہیں، البتہ بعض حالات میں اِن میں تخفیف کی اجازت دی گئی ہے۔ارشاد فرمایا ہے:
’’تم لوگ (اِس جہاد کے لیے) سفر میں نکلو تو تم پرکوئی حرج نہیں کہ نماز میں کمی کر لو، اگر اندیشہ ہو کہ منکرین تمھیں ستائیں گے، اِس لیے کہ یہ منکرین تمھارے کھلے دشمن ہیں۔‘‘ (النساء ۴: ۱۰۱)
قرآن مجید نے اِس آیت میں ایک خاص صورت حال کو سامنے رکھ کر نماز میں کمی کی اجازت دی ہے، جسے اصطلاح میں ’’قصر‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔مسلمان امت نے جس طرح نماز کے اعمال رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھے، اُسی طرح قرآن مجید نے جب اِس میں کمی کی اجازت دی تو رکعات میں کمی کے طریقے کو بھی آپ کی سنت سے اخذ کیا ہے ۔
قصر نماز کے حوالے سے قرآن مجید کی اِس ہدایت پر غور کیا جائے تو دو سوالات پیدا ہوتے ہیں:
پہلا سوال یہ ہے کہ سورۂ نساء کی یہ آیت ایک مخصوص صورت حال میں نماز کو قصر کرنے کی اجازت کیوں دے رہی ہے؟
اِس کا جواب یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ کے موقع پرانسان کو لڑائی کے لیے متنبہ رہنا پڑھتا ہے،اِس لیے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کا سارا وقت اور توجہات اِسی مقصد کے لیے متعین رہیں۔اِسی طرح جنگ کے لیے سفر پر نکلتے وقت انسانی نفسیات اقدام ،دفاع اور خوف کی کیفیات میں ہوتی ہے۔یہ کوئی عام حالت نہیں ہوتی، اِس صورت حال میں افراتفری، پریشانی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، جس میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ دوسرے کاموں میں زیادہ وقت صرف نہ ہو اور انسان کوسفر کااصل مقصدپوری طرح مستحضر رہے ۔ قرآن مجید کے مطابق چونکہ نماز کی دین میں اِس قدر اہمیت ہے کہ جنگ کے خطرات میں بھی کوئی مسلمان اُسے نظر انداز نہیں کر سکتا، اس لیے اِس صورت حال میں خود اللہ تعالیٰ کی جانب سے اِس میں کمی کا اعلان کردیا ہے۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ کے سفرمیں افراتفری،پریشانی اور آپادھاپی سے جواندیشہ کی صورت حال پیدا ہوتی ہے،اگر یہی کیفیت بعض دوسرے کاموں سے پیدا ہوجائے تو کیا اِن میں بھی نماز میں کمی کی رخصت دی جانی چاہیے؟عقل کہتی ہے کہ یقیناًایسا ہی ہونا چاہیے،اِس لیے کہ رخصت اگر کسی وجہ سے دی گئی ہے تو وہ سبب جہاں پایا جائے گا ،رخصت کا متقاضی ہوگا۔ لہٰذا اِسی عقلی اور فطری اصول کو سامنے رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آیت سے قیاس کیاہے کہ عام سفروں میں اضطراب،افراتفری اور پریشانی سے اندیشہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، لہٰذا وہاں بھی نماز کو قصر کیا جاسکتا ہے۔
آپ کا اِس رخصت کا مماثل صورت حال پر اطلاق متعدد روایات میں نقل ہوا ہے۔
سیدنا ابن عباس کا بیان ہے:
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: خرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من المدینۃ إلی مکۃ، لا یخاف إلا اللّٰہ رب العالمین فصلی رکعتین رکعتین حتی رجع.
’’ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینے سے مکہ کی جانب نکلے،اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہ تھا،تب بھی ہم نے لوٹنے تک دو دو رکعات پڑھیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی اِس آیت پر قیاس کرکے اِس رخصت میں اندیشے کے دیگر امکانات میں کیوں تسلیم کیا؟اس کی وجہ سیدنا عمر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود دریافت کی تھی۔روایت کے الفاظ ہیں:
عَنْ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ، قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا) مِنَ الصَّلَاۃِ اِنْ خِفْتُمْ أَنْ یَفْتِنَکُمُ الَّذِینَ کَفَرُوْا، فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْہُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ: ’’صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِہَا عَلَیْکُمْ فَاقْبَلُوْا صَدَقَتَہُ‘‘.(مسلم، رقم ۶۸۶)
’’یعلی بن امیہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عمر کو یہ آیت پڑھ کر سنائی: ’’تم لوگ (اِس جہاد کے لیے) سفر میں نکلو تو تم پرکوئی حرج نہیں کہ نماز میں کمی کر لو، اگر اندیشہ ہو کہ منکرین تمھیں ستائیں گے‘‘، اِس کے بعد اُن سے کہا: اِس وقت تو لوگ امن کی کیفیت میں آگئے تھے،تو عمر رضی اللہ نے کہا: جس بات پر تمھیں تعجب ہوا ہے، مجھے بھی ہوا تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس حوالے سے پوچھا ،اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ اللہ کی عنایت ہے جو اُس نے تم پر کی ہے،سو اللہ کی اِس عنایت کو قبول کرو۔‘‘
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے ’اِنْ خِفْتُمْ‘ (اگر تمھیں اندیشہ ہو) کی شرط کے ساتھ جو صورت حال بیان کی ہے ،اُس کی کوئی مماثل صورت حال کہیں اور پائی جائے گی، جس کے نتیجے میں اضطراب، افراتفری، پریشانی، زحمت یا آپادھاپی کا کوئی پہلو سامنے آئے تو وہاں بھی رخصت دی جا سکتی ہے ۔مثلاً آپریشن کے دوران میں ڈاکٹر کی نماز قضا ہونے کا اندیشہ ہو یا پھر کہیں آگ بجھانے کی کیفیت ہو اور کارکن نماز پڑھنا چاہیں تو وہاں بھی انسان یقیناً نماز قصر کر سکتاہے۔
ہمارے عہد کے فاضل محقق سید متین احمد صاحب نے سورۂ نساء کی اِس آیت سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے قیاس کو فکر فراہی میں الفاظ کی حاکمیت کی بحث کے تناظر میں پیش کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’یہاں چونکہ ’الفاظِ قرآن کی حاکمیت‘ سے صراحتاً عام سفر میں نماز کے قصر کا حکم مستنبط ہوتا نظر نہیں آتا، اس لیے غامدی صاحب بھی مجبور ہوئے ہیں کہ ’’روایتوں‘‘ اور ’’قیاس‘‘ کی طرف رجوع کریں۔ یہاں وہ اصل سوال لوٹ کر آتا ہے کہ خبرِ واحد کیا دین میں کسی نئے حکم کا اضافہ کر سکتی ہے یا نہیں؟ ‘‘
فاضل محقق کی خدمت میں عرض ہے کہ عام سفر میں قصرنماز کی رعایت کو ثابت کرنے کے لیے غامدی صاحب نے اپنی تفسیر ’’البیان‘‘ اور دین پر اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں آیت سے الگ ہوکر روایت کا سہارا نہیں لیا ، بلکہ یہ بتایا ہے کہ رسالت مآب کا جو عمل ہم تک نقل ہوا ہے، وہ قرآن مجید کی اِسی آیت سے قیاس پر مبنی ہے۔ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قیاس ہم تک نقل نہ ہوتا، تب بھی اہل علم اِس آیت کو پڑھ کر قیاس کر سکتے تھے،اِس صورت میں یہ اُن کا اجتہاد ہوتا، بالکل ایسے ہی، جیسے شریعت کی باقی ہدایات میں علما اشتراک علت کے اصول پر احکام کا اطلاق کرتے ہیں۔اِس پورے عمل کا قطعاً کوئی تعلق الفاظ کی حاکمیت کی بحث سے نہیں ہے۔فاضل محقق کا سوال اُس وقت قابل اعتنا ہوتا، جب یہ کہا جاتا کہ قیاس کا یہ عمل آیت کے الفاظ میں مذکور سبب سے بے نیاز ہو کر کیا جائے گا۔ فکرفراہی کا تو اصرار ہی یہی ہے کہ قرآن مجید سے جو کچھ بھی اخذ کیا جائے گا، اُس کا واحد راستہ اُس کے الفاظ ہیں۔الفاظ کلام میں ڈھل کر اگر کوئی علت یا سبب ہم تک منتقل کر رہے ہیں تو ہم اُس کا اطلاق مماثل صورت حال پر کر سکتے ہیں۔ لہٰذا بتانا یہ چاہیے کہ قرآن مجید کے الفاظ اِس سبب کو بیان نہیں کر رہے جس کا اطلاق کیا جا رہا ہے۔
فاضل محقق اِس کے بعد لکھتے ہیں:
دوسرا سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب نے جو یہ فرمایا کہ:
’’نبی ﷺ نے اپنے سفروں کے عام سفروں کی پریشانی، افراتفری اور آپا دھاپی کو بھی اس پر قیاس فرمایا اور ان میں بالعموم قصر نماز ہی پڑھی ہے۔ ’’تو کیا اس سے اصولی طور پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قیاس، جیسا کہ اصول فقہ کی تعبیر ہے،‘‘ ’مُظہرِ حکم‘ (حکم کو ظاہر کرنے والا) ہے۔ جب یہ مظہرِ حکم ہوا (جیسا کہ غامدی صاحب کی تصریح بھی بظاہر لگتا ہے۔) تو فقہ اسلامی کا مہتم بالشان ذخیرے کا بڑا حصہ جب اسی اصول سے ماخوذ ہے تو اسے محض انسانی فہم قرار دے کر کیوں رد کر دیا جائے۔‘‘
فاضل محقق نے یہاں یہ سوال اٹھایا ہے کہ قرآن مجید کی ہدایات پر قیاس کرنے کی یہ روایت حکم کے مضمرات اور نئے مسائل میں اطلاقات کو جاننے کی کوشش ہے، جس کی بہت شان دار روایت ہماری فقہ میں نظر آتی ہے، اِسے انسانی فہم کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے، اِس پر عرض ہے کہ کیا غامدی صاحب قیاس اور اجتہاد کے اس سارے عمل کو انسانی فہم قرار دے کر رد کرتے ہیں؟ اجتہاد کے موضوع پر غامدی صاحب کے آرٹیکل کے اِس حصہ کو دیکھنا چاہیے ،جہاں اِس سوال کا واضح جواب موجود ہے۔غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’دین کا تنہا ماخذ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے: ایک قرآن، دوسرے سنت۔ آپ کے بعد اب یہ اِنھی دو چیزوں سے اخذ کیا جاتا ہے۔ اِن کے علاوہ تبعاً اگر کوئی چیز خدا کے منشا تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے تو وہ اجتہاد ہے۔ اِس سے ہم بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ اُن احکام کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو براہ راست نصوص میں بیان نہیں ہوئے، لیکن اپنی نوعیت کے لحاظ سے اُنھی کے اطلاقات ہیں جو لوگوں کی راے اور فہم پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ قیاس اِسی کی ایک قسم ہے۔ قرآن میں اِس کے لیے استنباط کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے جو چیز وجود میں آتی ہے، اُسے فقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اِس کی ابتدا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہادات سے کر دی تھی۔ اخبار آحاد کا ایک بڑا ذخیرہ اِسی کا بیان ہے۔ آپ کے بعد صحابہ و تابعین نے بھی یہ روایت قائم رکھی۔‘‘ (مقامات ۱۵۶)
غامدی صاحب کا یہ بیان بتا رہا ہے کہ قرآن مجید کی کسی ہدایت کو سامنے رکھ کر قیاس کیا جائے تو یہ روایاتِ آحاد، قیاس اور خارج کو بیچ میں لا کر ’’کلامِ الٰہی پر تہمت دھرنا‘‘ نہیں ہے، بلکہ کسی مماثل صورت حال میں خدا کی منشا کو جاننے کا عمل ہے، یہ عمل جس طرح اِس آیت کے الفاظ سے بے نیاز ہو کر نہیں کیا جا سکتا، اُسی طرح کرنے والا، اگر پیغمبر نہیں ہے تو اُس کے اجتہاد سے اختلاف کی گنجایش باقی رہتی ہے۔یہ صرف پیغمبر ہیں ،دین کے معاملے میں جن کے اجتہادات کو خدا کی تصویب حاصل ہوتی ہے۔انسان اپنے علم کی حد تک قیاس و استنباط کر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر بحث ہونی ہے تو اِسے انسانی کام سمجھتے ہوئے ہونی ہے۔اور اگربحث کرنی ہے تو اِس قیاس کے صحیح یا غلط پر کرنی ہے۔ (مئی 2018ء)