Skip to content Skip to footer

استاد کبھی نہیں ڈانٹتا

“استاد کبھی نہیں ڈانٹتا'”
استاد کبھی نہیں ڈانٹتا، وہ تو بس اپنی آواز کو ہمارے اندھیروں میں اتارتا ہے، تاکہ ہم ارادوں کی دھند اور معمولات کی دوڑ میں اپنے اصل وجود کی آواز سن سکیں۔
اس کی ڈانٹ، دراصل ہمارے اندر دبی ہوئی ان صداؤں کو جگانے کی کوشش ہوتی ہے، جنہیں ہم نے سہولت، خوف یا خود فراموشی کی تہوں تلے دفن کر رکھا ہوتا ہے۔
وہ ہمیں صرف جھنجھوڑتا نہیں ، بلکہ ہمیں وہ آئینہ دکھاتا ہے جس سے ہم برسوں نظریں چرا چکے ہوتے ہیں۔
یاد دلاتا ہے کہ ہم محض ایک شخص، وجود، ایک نمرتا نہیں، بلکہ ایک ایسا امکان ہیں، جسے ابھی تک ہم نے خود دریافت نہیں کیا۔
جس لمحے وہ سختی کرتا ہے، وہ دراصل ہمارے وجود کے اس حصے کو تپش دیتا ہے، جہاں کچھ بننے کی سچّی تڑپ سلگتی تو ہے، مگر ہم نے اسے خود سے چھپا رکھا ہوتا ہے۔
اس کی ڈانٹ کا مقصد ہمیں گرانا نہیں ہوتا، بلکہ ہمیں اٹھانا ہوتا ہے ۔اس ملبے سے جو ہم نے خود پر اوڑھ لیا ہو۔
لہذا اس کی سرزنش پر دکھ ہمیں اپنی انا کے ٹوٹنے کا نہیں ہونا چاہیے، دکھ تو اس بات پر ہونا چاہیے کہ ہم نے اُسے اُس مقام تک لا کھڑا کیا، جہاں اُسے سختی کرنی پڑی۔
کیونکہ اصل اذیت استاد کی ہوتی ہے، وہ جو ہم سے زیادہ ہم پر یقین رکھتا ہے۔
وہ جو چاہے تو خاموش بھی ہو سکتا ہے، پیچھے ہٹ سکتا ہے، مگر وہ چپ نہیں رہتا ۔۔۔۔
کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہمارا خواب اب بھی سانس لے رہا ہے… اور وہ سانس اگر ہمیں سنائی نہیں دیتی، تو وہ اپنی آواز بلند کرتا ہے، تاکہ ہم جاگ سکیں۔۔۔
استاد کی ڈانٹ کو “ڈانٹ” مت سمجھیں!
یہ وہ جھکاؤ ہے جو اس وقت جنم لیتا ہے، جب ایک آنکھ اپنے شاگرد کو اس مقام سے نیچے گرتا دیکھتی ہے، جہاں وہ اسے ہمیشہ دیکھنا چاہتا تھا۔
یہ وہ اضطراب ہے، جو ایک دل میں اس وقت اٹھتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ ہم اپنے آپ سے کم پر راضی ہو چکے ہیں۔
وہ ہمیں نہیں جھڑکتا، بلکہ اس خواب کو جگاتا ہے… جو ہم نے دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔
استاد کی ڈانٹ، اگر دل سننے کو تیار ہو، تو محض آواز نہیں رہتی وہ ایک در کھولتی ہے:
اپنے اندر جھانکنے کا در، وہ در جو ہمیں ہمارے التوا میں پڑے خواب، ماند پڑی قابلیت، اور اندر ہی اندر سسکتے امکانات سے آشنا کرتا ہے۔
اگر ہم اس ڈانٹ کو رد کرنے کے بجائے، اسے اپنے شعور کے دروازے پر ایک دستک سمجھیں، تو یہی سختی ہمیں ہمارے جامد دائرے عمل سے نکال کر افلاک کی نئی سمت میں لے جا سکتی ہے۔
لیکن یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب ہم استاد کے سامنے انا کے خول اتار کر، سیکھنے کی نیت سے، کھلے دل کے ساتھ حاضر ہوں۔۔۔
نہ کسی دفاع کے ساتھ، نہ کسی الجھن کے ساتھ، بلکہ صرف اس یقین کے ساتھ کہ کبھی کبھی حقیقت وہی ہوتی ہے جو ہمیں کڑوی لگتی ہے، مگر ہمیں بہتر بنانے آئی ہوتی ہے۔۔۔
یاد رکھیں، جس دن استاد خاموش ہو جائے، وہ دن حقیقت میں ڈرنے کا دن ہے۔
کیونکہ خاموشی وہاں اترتی ہے، جہاں توقع مر چکی ہوتی ہے۔
اور اگر استاد نے آج ہمیں ڈانٹا ہے تو شکر ادا کیجیے…
کہ کوئی ہے، جو اب بھی ہمارے عروج کا خواب دیکھتا ہے۔
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
نوٹ:
(یہ تحریر اُس استاد کے لیے ہے، جس کی سختی میں محبت ہو اور لہجے میں اصلاح کی تڑپ۔ایسا استاد جو ڈانٹتا نہیں، جگاتا ہے — اور جبر نہیں کرتا، تربیت کرتا ہے۔جس کی بلند آواز دراصل ہماری نیند کو توڑنے کی کوشش ہو، نہ کہ ہماری ذات کو کچلنے کا حربہ۔تحقیر اور تشدد تعلیم نہیں، اور جو سکھانے کے نام پر خوف بانٹے، وہ استاد نہیں، اسے خود کسی استاد کی ضرورت ہے۔)
محمد حسن الیاس

Leave a comment