Skip to content Skip to footer

بے شعور مسلمان، باشعور ملحد!

بے شعور مسلمان، باشعور ملحد!
(محمد حسن الیاس)
دین کا اصل تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے خالق سے شعوری تعلق قائم کرے، نہ کہ محض نسلی یا موروثی انتساب پر بھروسہ کرے۔ اللہ نے انسان کو عقل و شعور دیا ہے اور اسی بنیاد پر وہ اس کے حضور جواب دہ ہے۔
اہل کتاب نے یہی غلطی کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ محض شناخت جنت کی ضمانت ہے:
وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ، بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ (البقرۃ: 111-112)
“اور یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ جنت میں ہرگز کوئی نہیں جائے گا، مگر جو یہودی یا عیسائی ہو۔ یہ ان کی بس آرزوئیں ہیں۔ کہہ دو: لاؤ اپنی دلیل، اگر سچے ہو۔ ہاں، جو اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دے اور نیکوکار بھی ہو تو اس کا صلہ اس کے پروردگار کے پاس ہے۔”
چنانچہ جنت میں جانے کا معیار اللہ تعالیٰ نے خود طے کر دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرۃ: 62)
“یقیناً جو لوگ ایمان لائے، اور جو یہودی ہوئے، اور نصاریٰ اور صابی، ان میں سے جو بھی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، ان کے لیے ان کے رب کے پاس صلہ ہے، ان پر نہ کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔”
یعنی اللہ کے نزدیک قبولیت کا معیار محض نسل یا نام نہیں، بلکہ شعوری ایمان، آخرت پر یقین اور نیک عمل ہے۔
مسلمانوں کے لیے یہ بات یقیناً ناگوار ہے کہ اُنھیں یہ بتایا جائے کہ محض مسلمان کہلانے سے جنت کی ضمانت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی رویہ یہود و نصاریٰ کا بھی تھا۔ قرآن نے اُن کے اس گمان کو باطل قرار دیا اور واضح کر دیا کہ اللہ کے ہاں فیصلہ صرف شعوری ایمان، اخلاص اور نیک عمل پر ہوگا، نہ کہ نسلی انتساب اور نام پر۔
اللہ نے اسی اصول پر مسلمانوں کو بھی متنبہ کیا ہے۔ ایمان صرف دعوے یا شناخت کا نام نہیں، بلکہ قرآن و سنت کو حکم ماننے کا ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء: 65)
“تمھارے رب کی قسم یہ ایمان نہیں لا سکتے جب تک اپنے اختلافات میں تمھیں منصف نہ مان لیں، پھر اپنے دلوں میں بھی تمھارے فیصلے پر کوئی تنگی نہ پائیں اور اسے پوری طرح تسلیم نہ کر لیں۔”
مزید یہ کہ:
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ … الظَّالِمُونَ … الْفَاسِقُونَ (المائدۃ: 44-47)
“اور جو اللہ کے اتارے ہوئے کے مطابق فیصلہ نہ کرے، وہی کافر ہیں … وہی ظالم ہیں … وہی فاسق ہیں۔”
یہ اعلان مسلمانوں ہی کو مخاطب کر کے کیا گیا ہے۔ یعنی دنیا میں چاہے کوئی بھی شناخت ہو، اگر اللہ کے دین کو فیصلوں کا معیار نہ بنایا جائے تو بندہ عند اللہ مومن نہیں بلکہ فاسق، ظالم اور کافر ہے۔ یہی بات مسلمانوں کے لیے سب سے مشکل ہے کہ وہ یہ مان لیں کہ صرف نام کا مسلمان ہونا جنت کی ضمانت نہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر باشعور مسلمان اپنے شعور کو الفاظ میں بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اور شعور کی سطحیں بھی عام اور علمی درجوں میں مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن اللہ کے نزدیک اپنے خالق کا شعور بہرحال مطلوب ہے۔ یہی بنیاد ہر انسان سے مانگی گئی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ شرک جیسے بڑے جرم کو اللہ کے ہاں محض بے شعوری کہہ کر قابلِ قبول نہ مانا جائے، لیکن خود اللہ کو بے شعوری میں مان لینا قابلِ قبول ہو۔ اصول ایک ہے: شعور کے بغیر نہ توحید معتبر ہے اور نہ ایمان۔
اس کے برعکس اگر کوئی شخص فی الحال خود کو ملحد یا متردد کہتا ہے لیکن وہ مخلص ہے، تعصبات اور اندھی تقلید سے آزاد ہو کر سچائی کی تلاش میں ہے، کائنات کے شواہد پر غور کر رہا ہے اور اپنی عقل و فطرت کے مطابق سوالات اٹھا رہا ہے، تو اللہ کا وعدہ ہے:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 69)
“اور جنھوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہے، ہم انھیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے۔”
باشعور ملحد آخرکار اسلام تک پہنچے گا، اور بے شعور مسلمان گمراہی میں ڈوب کر کفر و شرک تک جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من بطأ به عمله لم يسرع به نسبه (صحیح مسلم)
“جس کے عمل نے اسے پیچھے کر دیا ہو، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔”
میں نے ایک ملحد کو یہی توجہ دلائی کہ ایک مخلص، غیر متعصب اور باشعور ملحد، اُس بے شعور مسلمان سے بہتر ہے جو صرف روایت یا تعصب کی بنیاد پر مسلمان کہلاتا ہے۔ پہلا حقائق کا غیر جانب دارانہ جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ دوسرا اندھی تقلید کے جمود میں پھنسا رہتا ہے۔
البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر الحاد پر ڈٹا رہے، حقائق کے سامنے آنے کے باوجود انکار کرے اور تعصب کی بنیاد پر خدا کو ماننے سے انکار کرے تو قرآن کے مطابق وہ جہنم کا مستحق ہے۔
حسب سابق بعض لوگ اس سے یہ غلط فہمی پیدا کررہے ہیں کہ گویا اسلام کے بجائے الحاد پر قائم رہنے کو بھی بخشش کی نوید دی جا رہی ہے۔ یہ صریحاً سوئے فہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نجات کے معیارات اللہ نے خود متعین کیے ہیں اور وہی سب انسانوں پر یکساں طور پر لاگو ہوں گے۔
جو مطالبات ایک مسلمان سے ہیں، وہی ایک غیر مسلم یا ملحد سے بھی ہیں: اللہ پر شعوری ایمان، آخرت پر یقین، نیک عمل اور اللہ کی نازل کردہ ہدایت کی پیروی۔ اگر کوئی شخص ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو محض نام، نسب یا دعوے کی بنیاد پر نجات کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی اپنے علم کی حد تک معذور ہے تو جیسے مسلمان کے عذر کو پرکھا جائے گا، ویسے ہی غیر مسلم یا ملحد کے عذر کو بھی پرکھا جائے گا۔ فیصلہ صرف اور صرف خدا کے طے کردہ معیار پر ہوگا، نہ کہ کسی انسان کے گمان یا خواہش پر۔

Leave a comment