Skip to content Skip to footer

دعوت یا ڈیبیٹ

گزشتہ دنوں ایک مسیحی عالم سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے ایک نہایت اہم اور تکلیف دہ بات کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ جب مسلمان ہم سے ملتے ہیں تو اکثر گفتگو کی ابتدا ہی اس جملے سے کرتے ہیں کہ تمہاری کتاب میں تحریف ہو چکی ہے۔ ان کے بقول، اس سے بڑی بے عزتی کا تصور ممکن نہیں، اور اسی مقام پر مکالمے کے تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ ایسی فضا میں نہ دعوت باقی رہتی ہے اور نہ سنجیدہ گفتگو کی کوئی گنجائش۔
مولانا وحید الدین خانؒ نے اپنے ایک نہایت بصیرت افروز مضمون میں اسی بنیادی نکتے کی طرف توجہ دلائی تھی کہ دعوت کا آغاز منفی مقدمے سے کرنا کس قدر نقصان دہ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس طرزِ خطاب کا نتیجہ دعوت نہیں بلکہ دفاع، ردِ عمل اور نفسیاتی مزاحمت کی صورت میں نکلتا ہے، جس سے مخاطب سننے کے بجائے خود کو بچانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
مولانا کا اصرار یہ تھا کہ دعوت کا درست منہج یہ ہے کہ ہم پہلے یہ واضح کریں کہ بائبل بھی ہمارے نزدیک ایک آسمانی کتاب ہے، اور اصل مسئلہ تحریف کا شور مچانا نہیں بلکہ بائبل کی نوعیت اور قرآن کی نوعیت کے فرق کو مثبت اور معروضی انداز میں بیان کرنا ہے۔ قرآن خود کو میزان، فرقان اور مہیمِن کے طور پر پیش کرتا ہے، اور اسی حیثیت سے وہ سابقہ صحائف کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس حقیقت کو واضح کیے بغیر تحریف کا عنوان چھیڑ دینا نہ صرف علمی کمزوری ہے بلکہ دعوت کے مقصد کے بھی خلاف ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جسے نظر انداز کر کے ہم نے بین المذاہب دعوت کو ایک تعمیری مکالمے کے بجائے غیر ضروری تصادم میں بدل دیا ہے۔
حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ گفتگو اعتماد، احترام اور وضاحت کے ساتھ آگے بڑھے، نہ کہ نفی اور الزام کے ساتھ۔

Leave a comment