Skip to content Skip to footer

اسلام آباد ہائی کورٹ کا قابلِ تحسین اقدام

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلامی نظریاتی کونسل کے دائرہ کار سے متعلق جو حکم نامہ جاری کیا ہے، وہ آئینی اصولوں کی بحالی اور ریاستی اداروں کی درست سمت متعین کرنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ عدالت کے مشاہدات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ کونسل نے اپنے آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ایک ایسے معاملے پر سفارش جاری کی جس کا اختیار اسے آئین کے آرٹیکل 229 اور 230 کے تحت حاصل ہی نہیں تھا۔
عدالت نے نظریاتی کونسل کی اس سفارش کو فی الحال معطل کرتے ہوئے یہ بنیادی سوال اٹھایا ہے کہ آخر کونسی قانونی بنیاد پر کونسل ایف آئی اے یا پولیس کو اس نوعیت کی سفارش دے سکتی ہے، جب کہ آئین کے مطابق صرف صدر، گورنر اور پارلیمان ہی کونسل سے رائے طلب کر سکتے ہیں۔ کسی فرد، نجی ادارے یا تفتیشی ایجنسی کو یہ اختیار دیا ہی نہیں گیا۔
یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ انجینئر محمد علی مرزا پر توہینِ رسالت کا مقدمہ مکمل طور پر بے بنیاد ہے اور محض فرقہ وارانہ تعصب اور انتقامی رویوں کا نتیجہ ہے۔ اُن کے ساتھ ہر سطح پر واضح زیادتی ہو رہی ہے اور وہ طویل عرصے سے جیل میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جلد از جلد رہائی عطا فرمائے۔
امید ہے کہ عدالت نہ صرف قانون اور حقائق کے مطابق فیصلہ دے گی بلکہ اس کیس کو ایک اصولی مثال کے طور پر بھی قائم کرے گی تاکہ مستقبل میں آئینی اداروں کے اختیارات سے تجاوز کا دروازہ بند ہو سکے۔
محمد حسن الیاس

Leave a comment