گفتگو: محمد حسن الیاس
سوالات: نجم سہروردی
تدوین و ترتیب: رانا معظم صفدر
پاکستان، امریکہ اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ
جناب محمد حسن الیاس سے ایک انٹرویو
]’’غامدی سینٹر آف اسلامک لرننگ، امریکہ‘‘ کے ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ کمیونیکیشن اور ’’اشراق امریکہ‘‘ (آڈیو) کے مدیر محمد حسن الیاس صاحب گذشتہ دنوں پاکستان گئے تو ’’آف دا اسکول‘‘ پوڈ کاسٹ کے میزبان نجم سہروردی نے اُن کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو میں اُن سے پاکستان اور مسلمانوں کو درپیش مختلف مسائل پرسوالات کیے گئے۔ حسن الیاس صاحب نے اُن کے جواب میں پوری وضاحت سے اپنے موقف کو پیش کیا۔ یہ انٹرویو غامدی سینٹر کے یو ٹیوب چینل پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اِسے ضروری ترتیب و تدوین اور حک و اضافے کے بعد ’’اشراق امریکہ‘‘ کے قارئین کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ [
تعارف
نجم سہروردی: آج ہمارےساتھ حسن الیاس صاحب موجود ہیں ۔ یہ جناب جاوید احمد غامدی کے نمایاں شاگرد ہیں اور ان کے ادارہ ’’غامدی سینٹر آف اسلامک لرننگ ،امریکہ‘‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ سخت اختلاف کے باوجود ان کے ساتھ تحمل اور شایستگی سے مکالمہ کیا جا سکتا ہے۔ آج کے زمانے میں، جب کہ ہمارا معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے ، یہ خوبی ایک بڑی نعمت سے کم نہیں ہے۔ اختلافی موضوعات پر اگر تحمل ، تکریم اور سلیقے سے بات ہو تو اس سے سیکھنے کو بھی بہت کچھ ملتا ہےاور معاشرے میں مکالمے کی فضا بھی پروان چڑھتی ہے۔
حسن بھائی ، تشریف آوری کے لیے آپ کا شکریہ۔
آج ہم علمی و فکری اور سیاسی و سماجی موضوعات پر بعض اہم سوالات کو زیر بحث لائیں گے۔ مگر اس سے پہلے میری گزارش ہے کہ اپنی ابتدائی زندگی اور اپنے تعلیمی سفر کے بارے میں کچھ تعارف کرا دیجیے۔
محمد حسن الیاس: بہت شکریہ بھائی، حسن ظن کے لیے شکر گزار ہوں۔
میری پیدایش 1988ء کی ہے اور جاے پیدایش کراچی ہے۔ 1988ءسے لے کر 2010ء تک میں پاکستان میں رہا۔ اس میں زیادہ وقت کراچی ہی میں گزرا ۔ میری اسکول کی تعلیم بھی یہاں پر ہوئی ۔ بارہ تیرہ سال کی عمر تک یہیں پر تعلیم پائی۔پھر کچھ عرصہ اسلام آباد میں رہا۔ اس کے بعد کراچی واپس آ کر مدرسہ کی تعلیم کا آغاز کیا اور درسِ نظامی کے نصاب کو مکمل کیا۔ پھر 2011ء میں جاوید احمد غامدی صاحب کے پاس ملائیشیا چلا گیا۔ اگلے 8 سال ملائیشیا میں اُنھی کے زیرِ تربیت گزرے۔ اُن سے قرآن و سنت اور حدیث کے علوم کو براہِ راست پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ 2019 ء میں امریکہ منتقل ہو گیا ۔ پچھلے پانچ سال سے امریکہ ہی میں مقیم ہوں اور غامدی صاحب کے ساتھ علم و تحقیق اور تصنیف و تالیف کے کاموں میں شب وروز مشغول ہوں۔
ــــــــــ
پاکستان اور امریکہ کے نظام تعلیم کا فرق
سوال: حسن صاحب آپ نے پاکستان کے اسکول اور مدرسے، دونوں میں تعلیم پائی ہے۔ پھر آپ نے ملائیشیا اور امریکہ کے نظام ِتعلیم کو بھی دیکھا ہے۔ یعنی آپ کو یہ موقع میسر ہوا ہے کہ پاکستان کےجدید تعلیمی اداروں اور روایتی دینی مدارس کے نظام کو براہ راست جان سکیں۔ پھر امریکہ کے جدید ترین نظام ِتعلیم کو بھی آپ نے دیکھا ہے۔ اِس تناظر میں یہ بتائیے کہ پاکستان اور امریکہ کے نظام ِتعلیم میں کیا فرق ہے؟
جواب: دیکھیں، ہر معاشرے کا نظام ِتعلیم اُس کے حالات کا عکاس ہوتا ہے۔ یہ معاشرے کی کوئی مجرد یا کوئی الگ سے چیز نہیں ہوتی۔ ایک معاشرے کا جو قومی مزاج ہو گا، جو اس کے افکار و نظریات ہوں گے، جو آدرش ہوں گے، جو اہداف ہوں گے، اُنھی سے اُس کا نظام ِتعلیم تشکیل پائے گا۔
اب اگر ہم پاکستان کے نظام ِتعلیم کی بات کریں تو اس کو سمجھنے کے لیے کئی پہلو پیش ِنظر رہنے چاہییں۔ ہم جانتے ہیں کہ گذشتہ کم و بیش دو سوسال سے یہ خطہ ایک تہذیبی بحران کا شکار ہے۔ اِس کی وجہ سے یہاں پر تہذیبی معاملات میں کشمکش اور تصادم نظر آئے گا۔پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کی بات ہوتی ہے؛ خلافت کے احیا کی تحریکیں اٹھتی ہیں؛ اسے اسلامی ممالک کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے ۔ پھر انگریزوں کے تسلط سے نجات کی کامیابی کا احساس ہے۔ سول ملٹری تعلقات کی کشمکش ہے۔ اس کے ساتھ یہ خطہ عالمی استعماری طاقتوں کے مفادات کا مرکز بھی ہے اور اس بنا پر اُن کی مداخلت کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔
اس مختصر جائزے سے بہ خوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کس قسم کے تہذیبی بحران کا شکار ہے۔ یہی تہذیبی بحران ہمارے رویوں میں ڈھلتا ہے ۔ اسی سے ہمارا قومی مزاج تشکیل پاتا ہے۔ پھر یہی مزاج ہمارے نظام تعلیم میں منعکس ہوتا ہے ۔
ایک اور زاویے سے دیکھیے تو ہمارا تعلیمی نظام در حقیقت اُس دور کی اشرافیہ کا وضع کردہ ہے، جس میں تعلیم کا مقصد چند لوگوں کو اعلیٰ عہدوں تک پہنچانا ہوتا تھا۔ ان اعلیٰ عہدوں تک پہنچانے کے لیے مقابلے کے اصول پر لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارا تعلیمی نظام طالب علموں کو جس ہدف کی طرف بڑھاتا ہے، وہ عہدوں تک رسائی اور ملازمت کا حصول ہے۔ دراں حالیکہ حقیقت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو تعلیم کا اس پورے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تعلیم تہذیبِ نفس کا نام ہے۔تعلیم انسان کی اس صلاحیت کو نکھارتی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی ہوتی ہے۔ میں اکثر یہ بات کہتا ہوں کہ بعض اوقات مشکل معاملات ہمیں زندگی کے وہ اہم سبق سمجھا دیتے ہیں ،جو بڑے بڑے فلسفی نہیں سمجھا سکتے۔ میں اپنی بات کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ میرے ہاں، جڑواں بچوں کی پیدایش ہوئی۔ مجھے ان کے حوالے سے یہ فکرمندی تھی کہ کہیں جڑواں ہونے کی وجہ سے یہ کم زور نہ ہوں، چنانچہ میں نے انٹرنیٹ پر مختلف طرح کی تحقیقات پڑھنا شروع کیں، پھر مختلف ڈاکٹر وں سے ملا۔ ایک ڈاکٹر صاحب سے جب میں نے پوچھا کہ میرے بچے تین مہینے کے ہو گئے ہیں، دنیا میں تین مہینے کے بچوں کا جو وزن ہوتا ہے، ان کے مقابلے میں میرے بچوں کا وزن کتنا ہے؟ تو انھوں نے مجھے کہا کہ یہ بالکل غلط زاویہ ہے،جس سے آپ سوچ رہے ہیں۔ بچوں کے وزن کا پیمانہ کبھی بھی دنیا کے بچوں کے ساتھ موازنے سے طے نہیں کیا جاتا۔ بچوں کا وزن ان کی پیدایش کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ کے بچے کا تقابل اس کی پیدایش سے ہوگاکہ اب وہ کہاں تک پہنچ گیا ہے۔ تعلیم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اللہ نے مجھے جو صلاحیتیں دیں ، جن کے ساتھ میں پیدا ہوا ہوں ، اب ان کونکھارنے کانام تعلیم ہے۔ اس تفصیل سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام ہمارےقومی بحران کو ظاہر کرتا ہے۔
جہاں تک امریکی معاشرے کا تعلق ہے تو اُس کی اساس جان لاک (John Locke) اور بعض دوسرے اہلِ علم کے سماجی اور سیاسی افکار پر قائم ہے۔ اِس میں انسانیت (Humanism)، آزادیِ اظہار راے (Freedom of expression)، حریت فکر اور حریت آزادی جیسی چیزوں کو بنیادی اقدار (Basic Values) کی حیثیت حاصل ہے۔
امریکہ کا اپنا مذہبی پس منظر ہے، سیاسی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ انھوں نے جبر ،تسلط اور ظلم جیسی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ اِس سب کچھ کے نتیجے میں وہاں کچھ معاشرتی اقدار پیدا ہوئی ہیں۔ قانون کی حکمرانی ایک قدرہے ، حق خودارادی ایک قدرہے ، آزادیِ راے ایک قدر ہے، جمہوریت ایک قدر ہے ۔ مزید یہ کہ وہاں لوگوں کو نقل مکانی کے معاملے میں مکمل آزادی حاصل ہے۔ اِن عوامل اور ان اقدار نے اُس کے قومی مزاج کو وجود بخشا ہے اور یہی قومی مزاج اُن کے تعلیمی نظام میں کارفرما ہے۔
لہٰذا امریکہ میں تعلیم کا تصور اس سے بالکل مختلف ہے، جو ہمارے ہاں پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ وہاں تعلیم یافتہ ہونے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ آپ اعلیٰ درجے کی ڈگریاں رکھتے ہیں۔ امریکہ کے اگر اعداد و شمار دیکھیں تو بہت کم تعداد ہے جو ہائیر ایجوکیشن اور یونیورسٹی لیول تک جاتی ہے، اور ہونا بھی ایسے ہی چاہیے۔ سوسائٹی کے اندر اختصاصی تعلیم (Specialization) حاصل کرنے والوں کی تعداد دس سے بارہ فی صد ہوتی ہے ، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی غیر تعلیم یافتہ تصور کیے جاتے ہیں ۔ باقی لوگ اپنے شعور اور روزگار کو بہتر کرنے کے لیے اپنی دل چسپی کے شعبے میں مہارت حاصل کرتے ہیں، مثلاً وہ زبان (Language) سیکھتے ہیں، یا مختلف طرح کے ہنر(Skills)سیکھتے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ وہاں انسان کی بنیادی ضروریات کی مہارت (Skills)کو وہ اسی طرح محنت سے سیکھتے ہیں ، جیسے کوئی اعلیٰ ڈگری لینے والا شخص اپنی ڈگری کے لیے محنت کرتا ہے۔ اور پھر یہی وجہ ہے کہ وہاں ہنرمند کی وہی عزت ہے جو ایک پی ایچ ڈی اسکالر کی ہوتی ہے ، بلکہ شاید اس سے زیادہ عزت ہوتی ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے معاشی نظام کا فرق
سوال: ہمارے مشاہدے میں یہ چیز آتی ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ ٹیکسی چلانے یا الیکٹریشن اور پلمبرنگ جیسے ہنر مندی کے پیشوں کو معیوب خیال نہیں کرتے ، بلکہ وہاں وہ اس طرح کے پیشوں سے اتنا کماتے ہیں کہ بہ آسانی پوش علاقوں میں گھر خرید لیتے ہیں۔ اس کے برعکس، ہمارے معاشرے میں ایسے پیشوں کو کم تر سمجھا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں ہر کوئی دل میں بڑی ڈگری لینے کی خواہش لیے پھرتا ہے ،جب کہ اعلیٰ ڈگری لے کر حتیٰ کہ ڈاکٹر انجینئر بننے کے باوجود آمدن کی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ کراچی جیسے شہر میں اپنا گھر لینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آپ کے نزدیک اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب : دیکھیے ، اس میں دو پہلو ہیں : ایک پہلو ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ پیشے کو عزت یا نفرت کے تعارف سے بچپن سے ہی ذہنوں میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ والدین اپنے روز مرہ جملوں میں بچوں کو اس طرح کی باتیں کہتے ہیں کہ اگر نہیں پڑھو گے تو زندگی میں کیا کرو گے ، کیا ریڑھی لگاؤ گے؟ آپ دیکھیں، کس طرح حقارت اور کم تری سے ایک پیشہ کا تعارف ذہن میں بٹھایا جا رہا ہے۔ یعنی ایک طرف تعلیم کو شعور کے حصول کے بجاے محض روزگار کا ذریعہ بتایا جا رہا ہے اور دوسری طرف ریڑھی لگانے کو ایک حقیر روزگار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس، اسی پیشے کو، یعنی ریڑھی لگانے کو امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں سٹارٹ اپ کا نام دیا جاتا ہے اور اِسے ‘entrepreneurship’ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریڑھی کے کاروبار اور ریڑھی لگانے والے کے بارے میں وہاں حقارت اور کم تری کا کوئی تصور نہیں ہے۔ چنانچہ اس صورت حال کی اصلاح کے لیے ہمیں اپنے معاشرے میں یہ عام کرنے کی ضرورت ہے کہ محنت کر کے جائز طریقے سے کمائی کے تمام پیشے باعزت ہیں۔
دوسرا پہلو اس میں مسابقت اور مقابلہ بازی (comparison) کے مسئلہ کا ہے۔ ہمارے ہاں اپنی صلاحیتوں، ترجیحات اور میسر مواقع کو بنیاد بنا کر پیشے کا انتخاب نہیں کیا جاتا، بلکہ دوسروں کے ساتھ خواہ مخواہ کی دوڑ کا رویہ ہے۔ یہ رویہ اپنی اصل میں مخاصمت اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی نفسیات پر مبنی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اس نفسیات میں نہیں پڑتے، ہمارے ہاں اس چیز کی بھی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔
سوال: امریکہ یا ایسے ترقی یافتہ معاشروں نے ایسا کیا طریقہ اختیار کیا جو ہم بھی اختیار کر کے بہتری لا سکیں اور ترقی کرسکیں ؟ کیا آپ ان معاشروں کا مطالعہ (study) کرنے کا مشورہ دیتے ہیں؟
جواب : دیکھیے، کسی سوسائٹی کا ایک مطالعہ خارج میں بیٹھ کر کیا جاتا ہے، جیسے کتابوں کے ذریعے سے ، فلموں کے ذریعے سے ، سفر ناموں کے ذریعے سے اور ایک مطالعہ وہاں جا کر براہ راست خود مشاہدہ کرنا ہے ۔ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ تاہم، بہتری کے لیے اس طرح کی کوشش سے یقیناً فائدہ ہو گا، لیکن میرے نزدیک اس مطالعہ کے نتیجے میں بھی اصلاحِ احوال اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اپنے اندر اتنی برداشت پیدا کر لیں کہ جو تبدیلیاں دنیا میں ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں، ہم ان پر کھل کر بات کر سکیں اور ناگزیر تبدیلیوں کے لیے اپنی قوم کو آمادہ کر سکیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے عدم برداشت اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہم اختلافی نظریات رکھنے والے کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ اس میں غامدی صاحب اور میری مثال آپ کے سامنے ہے کہ کس طرح ہم اپنے نظریات کی وجہ سے ‘persecution’ کا شکار رہے۔ ہمیں آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، حتیٰ کی مجبوراً ہم ملائیشیا چلے گئے۔
برسبیل تنزل، میں یہاں ملائیشیا کی مثال دینا چاہوں گا۔ ملائیشیا ایک اسلامی ملک ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں دین ایک تہذیب اور روایت ہے۔ دین جو بنیادی اقدار پیدا کرتا ہے،وہ ان کے معاشرتی اقدار کے نظام (Social Value System) میں نظر آتی ہیں۔ وہاں کے لوگوں میں اچھی اخلاقیات ہیں، وہاں پر ہنر مندی کا جذبہ ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ملائیشیا پہلے دن سے ایسا ملک نہیں تھا، اس ماڈرن ملائیشیا کے بانی مہاتیر محمد ہیں۔ ایک دفعہ میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُن سے اِس ترقی کا راز پوچھا ۔ میں یہ راز اِس لیے بھی جاننا چاہتا تھا کہ ہم پاکستانی بھی اسلام کا بہت دم بھرتے ہیں اور ہمارے اندر ترقی کرنے کی خواہش بھی ہے۔ چنانچہ میں جاننا چاہتا تھا کہ راز کیا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ میں نے اپنی قوم کی تعمیر و ترقی کا فارمولا یہ بنایا کہ ہمارے اندر جو دس سے بارہ فی صد صاحبِ بصیرت (intellectuals) ہیں ، ان میں یہ ہنر پیدا کر دیا جائے کہ وہ باقی نوے فی صد کو کام پر لگائیں۔ چنانچہ دس سے بارہ فی صد لوگ باقی نوے فی صد کو کا م کرنا سکھاتے ہیں۔ اس طریقے سے قوم ایک سمت (direction)پر چل پڑی۔
اب،اگر ہم اپنے ملک کو دیکھیں تو ایک سمت میں چلنے میں کئی طرح کے چیلنج درپیش ہیں۔ جیسے، ہمارے ہاں ریاست کے اندر ریاستیں نظر آتی ہیں ۔ مثال کے طورپر ایک ریاست’نامعلوم لوگوں‘کی ہے ، ایک ریاست’مذہبی لوگوں‘کی ہے، ان کی وجہ سے معاشرے کے لوگ ایک سمت میں چلنے کے بجاے آپس کی کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایک اور بڑا چیلنج عدم استحکام ہے۔ صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ گھر سے لے کر معاشرے تک اور دکان سے لے کر ریاستی اداروں تک ، کہیں بھی استحکام نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں استحکام کے بجاے تصادم (confrontation) ہو گا، وہاں انسان کبھی بھی اجتماعی طور پر نہیں سوچتا۔ وہ صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے۔ میں آپ کو روز مرہ مشاہدے کی مثال دیتا ہوں۔ کراچی کی سڑکوں پر ہر گاڑی والا، ہر موٹر سائیکل سوار اس بات کی پروا کیے بغیر کہ کہیں ٹریفک نہ پھنس جائے اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ نکل جائے، خواہ دوسرے بعد میں گھنٹوں خوار ہوتے رہیں۔ یہ رویہ اور یہ نفسیات اب ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ ہم ہر معاملے میں ، اپنی قوم اپنے لوگوں کی پروا کیے بغیر صرف اپنی ذات کا سوچتے ہوئے دوسرے سے آگے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ہماری اصلاح کے لیے یہ تبدیلی بہت ضروری ہے کہ جس طرح ملائیشیا کی قوم نے خود کو بہ حیثیت قوم پہچانا اور وہ ایک سمت میں چل پڑے ، ہم بھی اپنی ذات سے اوپر اٹھیں اور ایک قوم کی طرح سوچیں۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو قوم کی ترقی اور خوش حالی کے اس معاملے میں امریکہ بہت سا سفر طے کر کے ایک مقام تک پہنچ چکا ہے۔ یہاں، اب صورت حال یہ ہے کہ ہر شخص اپنی صلاحیت کو بروے کار لا کر آگے بڑھ رہا ہے اور ریاست کا ایک ہی مقصد ہےاور وہ یہ ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے۔ آپ دیکھیے، وہ اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی پناہ اور تحفظ دیتے ہیں جن کے لیے اپنے مذہبی یا سیاسی نظریات کی وجہ سے اپنے ملکوں میں رہنا ممکن نہ رہے۔ ہم جیسے مذہبی لوگوں کے لیے جب اپنے ملک میں رہنا ممکن نہ رہے تو امریکہ ہی میں جگہ ملتی ہے۔ اس پر لوگوں کو یہ غور کرنا چاہیے کہ ملک میں عدم برداشت اور عدم تحفظ کی یہ صورت کیوں کر ہو گئی ہے، جب کہ لوگ اعتراض یہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم لوگ یہود و ہنود کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔
سوال: امریکہ کے معاشی نظام کی اگر بات کریں تو سرمایہ دارانہ نظام کا تصور ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس پر مذہبی نقطۂ نظر سے بھی تنقید ہوتی ہے اور سماجی اور معاشی لحاظ سے بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں ۔ آپ چونکہ اب وہاں مقیم ہیں اور چیزیں براہ راست آپ کے مشاہدے میں ہیں تو امریکی سرمایہ دارانہ نظام کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
جواب : میرے ہاں کسی بھی بات کو سمجھنے کا عمل فطرت کے ان عوامل کے مطالعے سے شروع ہوتاہے جو اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھے ہیں۔جہاں تک سرمایہ دارانہ نظام پر لوگوں کی تنقیدات ہیں، سچی بات ہے کہ وہ مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آئیں۔ مجھے یاد ہے، ایک زمانے میں ہم کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف میں جاتے تھے۔ اور وہاں پر ایک بڑی اچھی بزم اور انجمن لگتی تھی۔ وہاں داخل ہو کر لگتا تھا کہ کسی دوسری دنیا میں آگئے ہیں، کیونکہ وہاں پر نئے نئے نظام اور افکار کی باتیں ہوتی تھیں۔ وہاں سرمایہ دارانہ نظام کی بیخ کنی اور اس کی ریشہ دوانیوں پر بات کرنے والے فلاسفر بھی بیٹھے ہوتے تھے۔ ایک بار مجھے ایک صاحب نے کہا یہ نظام لوگوں کے اندر حرص اور لالچ کی نفسیات پیدا کرتا ہے۔ انھیں نت نئی چیزیں دکھا کر اس کی خریداری پر راغب کرتا ہے ، اور پھر لوگ ان چیزوں کو خرید کر فخر کی نفسیات میں آ جاتے ہیں ۔یہ نظام اس فخر کی نفسیات کا فائدہ اٹھا کر انسان کی جیب میں سے آخری چونی تک کو اینٹھ لینے کی ایک پوری کی پوری منظم کاوش ہے …ان کی بات ابھی جاری تھی کہ ہم نے کھڑکی سے دیکھا کہ ایک شخص نئی گاڑی بڑے زور سے دوڑاتے ہوئے لے کر گیا۔ اِس پر اُنھوں نے کہا کہ یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کے مفاسد۔ اِس کو پہلے گاڑی کے اشتہار دکھا کر اس کے اندر حرص پیدا کی گئی، اب اِس نے گاڑی خریدی ہے اور یہ فخر سے اِس گاڑی کو کراچی یونیورسٹی کی سڑکوں پہ دوڑا رہا ہے۔ اِس پر میں نے پلٹ کر اُن سے کہا کہ یہ فخر تو گھوڑا خرید کر بھی محسوس ہوتا ہے۔ یعنی اگر میرے پاس نیا گھوڑا ہو اور میں اُس پر سوار ہو کر سڑک پر نکلوں تو میرے اندر یہ نفسیات پیدا ہو گی، کیونکہ برتری اور تفوق کا جذبہ اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے۔ کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ میرے اندر یہ جبلت نہیں ہونی چاہیے؟ نئی چیز لے کر خوشی نہیں ہونی چاہیے؟ اِسی طرح اللہ نے اگر مجھے کوئی صلاحیت دی ہے تو میں اس کے ذریعے سے لوگوں کو اُس پہ متوجہ نہ کروں؟یہ تو میں روز کررہا ہوتا ہوں، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری جبلت ہے ۔ اگر اس جبلت کو کسی معیشت نے اپنا لیا ہے تو بہ حیثیتِ نظام کیسے اس کو انسانی فطرت سے مزاحم قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ اپروچ میں کبھی سمجھ نہیں سکا۔
دوسری طرف جو لوگ نجی ملکیت کی مخالفت میں مشترکہ ملکیت کے نظام کی حمایت کرتے ہیں، وہاں پر بھی میں فلسفیوں کے تصورات میں جانے سے پہلے اپنی فطرت کو دیکھتا ہوں۔ بھئی!میری فطرت میں ملکیت کا تصور ہے۔ میں ownership’ ‘کے ساتھ attachment’‘ محسوس کرتا ہوں۔ جیسے ہمارے اندر مٹی کی’ ‘ownership ہے۔ مثلاً میں جب بھی امریکہ سے کراچی آتا ہوں تو میرے اندر ایک جذبۂ سپاس محسوس ہوتا ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ایسا کیوں ہے؟ تو میرا جواب یہی ہو گا کہ میں چونکہ یہاں سے مستفید ہو کر نکلا ہوں، اس مٹی سے تعلق رکھتا ہوں، اس لیے میرے یہ جذبات ہیں۔کیا ‘ownership’ کے جذبات غلط اور غیرفطری ہیں کہ جنھیں ختم کر دینا چاہیے؟
سرمایہ دارانہ نظام یا دنیا میں بنایا گیا کوئی بھی نظام جو انسان نے بنایاہے ، ان کے اندر مفاسد ہو سکتے ہیں ، دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد کیا ہیں اور کیا بہتری کے امکانات موجود ہیں ۔ اور اس سے پہلے اس نظام کو اپنی فطرت سے ہم آہنگی کے تصورات کے ساتھ دیکھیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی نفی کرتے ہوئے بعض لوگ اِس کے متبادل میں اسلامی نظام معیشت کا نام لیتے ہیں ۔ یہ اصل میں بارہ چودہ سو سال پہلے کی عرب معاشرت کے اندر پیدا ہونے والی ایک مخصوص دور کی فقہ ہے، اگرچہ لوگ اس کو اسلام کا نام دے دیتے ہیں اور اس سے ایک نظام پیش کرتے ہیں۔جب اس نظام پر بات کی جائے گی تو اس پر بھی کئی اعتراضات سامنے آ جائیں گے۔
امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے تناظر میں ، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ وہاں پر ریاست اپنے شہریوں کو ایک خاص معیار زندگی تک لے جانا چاہتی ہے۔ جس میں ہر شہری کو تعلیم اور بنیادی صحت کی سہولت میسر ہو۔ اس کے بعد وہ شہریوں کے ہنر کو آزماتے ہیں۔ آپ سمجھیں جیسے اللہ تعالیٰ آپ کو آزمانے کے لیے ارادہ و اختیار کے شعور کے ساتھ دنیا میں بھیجتے ہیں ۔ ایسے ہی سرمایہ دارانہ نظام بھی آپ کو آزماتا ہے۔ اور اس آزمایش میں جو لوگ کم زور ہوتے ہیں ، وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یوں پیچھے رہنے والے یہ کہتے ہیں کہ یہ نظام ہمیں پیچھے چھوڑ کے چلا گیا ہے۔
سوال: تو کیا اس کو Survival of the fittest’ ‘کہنا بجا ہو گا؟
جواب : بالکل! ایسا ہی ہے۔ دنیا کا اصول اسی پر ہے۔ آپ یہ دیکھیے کہ آپ کے اس اسکول میں بھی ‘Survival of the fittest’ ہی کا قانون ہے۔ ایک ٹیچر آتا ہے اور اپنی پرفارمنس دیتا ہے، اگر وہ پرفارمنس آپ کے لیے قابل قبول ہوتی ہےتو وہ آگے ‘survive’ کرتا ہے، بہ صورتِ دیگر آپ اس کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ دنیا کا نظام اِسی کے مطابق چل رہا ہے۔ تو سرمایہ دارانہ نظام کے مفاسد لوگ بیان کرتے ہیں، لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ فری مارکیٹ اکانومی میں جب آپ انسانوں کو ان کے اپنے داخلی شعور پہ چھوڑ دیتے ہیں تو بہت ساری چیزیں بہتر ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چیزوں کی تنقیح ہوتی ہے۔ اس معاملے میں بھی خود امریکہ میں اس میں تنقیح ہوئی۔ اب آپ دیکھیے کہ کارل مارکس کے نظریات پر مبنی نظام سے جو مفاسد سامنے آئے ــــ جو ظلم و استبداد پیدا ہوا ــــ اس پر آواز اٹھائی گئی ، جس پر اُس کی تنقیح کی گئی ،پھر یہیں سے بہتری پیدا ہوئی۔ اِس وقت جتنے قوانین (laws) نظر آتے ہیں جیسے ‘labour laws’ یا ‘human rights’وہ اِسی تنقیح کا نتیجہ ہیں۔ چنانچہ کسی نظام کے فوائد کو نظر انداز کر کے اس کے مفاسد کی وجہ سے رد کر دینا کوئی دانش مندی نہیں ، بلکہ اس میں بہتری کے امکانات کو دیکھا جائے اور مفاسد کو دور کیا جائے ۔
پاکستان اور امریکہ کے ‘Dream’کا فرق
سوال: پاکستان کو اگر ہم امریکہ کے تناظر میں دیکھیں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ‘American Dream’ کی طرح ‘Pakistani Dream’بھی کوئی حقیقت رکھتا ہے؟
جواب:اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ ‘Pakistani Dream’ موجود ہے، اور نہ صرف موجود ہے، اسے جان کر آپ کوAmerican Dream’ ‘ اس کے سامنے ہیچ لگے گا۔آپ میری بات پر حیران نہ ہوں، میں آپ کو اس کے حوالے سے کچھ دل چسپ بات بتاتا ہوں جو ہمارے ایک دوست نے ہمیں بتائی۔ وہ ایک مشہور مذہبی اسکالر ہیں، اور دنیابھر میں ان کا رابطہ رہتا ہے۔ انٹرنیٹ کی کچھ بڑی کمپنیوں کے CEOsکے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے ہمارے دوست کو بتایا کہ اسلامی ورلڈ،بالخصوص ہمارے اس خطے کے لوگ انٹرنیٹ پر جو چیز سب سے زیادہ searchکرتے ہیں، وہ علاماتِ قیامت ہیں اور نزول مسیح اور امام مہدی کی آمد ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو ‘Dream’ پایا جاتا ہے، ایسا تو پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ پوری دنیا پر غلبے کا خواب؛ وہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ۔
سوال: اس طرح کی نوید اور انتظار کی امید تو ہمیں دوسرے مذاہب میں بھی ملتی ہے۔ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو بالکل اسی طرح کسی مسیحا کے منتظر ہیں اور پھر دنیا بھر پر حکومت کے ارادے میں ہیں۔آپ اس میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟
جواب:بالکل ایسا ہے، لیکن ایک واضح فرق کے ساتھ۔ وہ فرق یہ ہے کہ وہ لوگ اس انتظار میں اپنا آج برباد نہیں کر رہے، جب کہ ہمارے ہاں محض انتظار ہے، اور اس انتظار میں ہم لوگ اپنا آج ہر ہر سطح پر قربان کر رہے ہیں۔ ہمارے لوگ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم دنیا کے ذہین ترین لوگ ہیں۔ اور فخر کی اس نفسیات میں جی رہے ہیں کہ اس وقت دنیا نے جتنی بھی ترقی کی ہے اور جتنی بھی ایجادات کی ہیں،وہ سب ہمارے بزرگوں کی کتابوں سے علم چرا کر کی ہے۔ ہم کوئی عام قوم نہیں ہیں ،ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے پہلے بھی ہزار سال دنیا پر حکومت کی ہے، اب دوبارہ دنیا کے اسٹیج پر ہمیں ہی قابض ہونا ہے، اور باقی دنیا ہمارے باج گزار بن کر رہیں گے۔یہ ہے وہ خواب جو پاکستان میں دکھایا جاتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ یہ خواب دنیا، حقیقت، فطرت کے مسلمات اور مسلمہ تاریخی حقائق کے برخلاف ہے۔ ہم لوگ مفتوح قوم ہیں ، اور اس درجے میں مغلوب ہیں کہ عالمی طاقتوں نے ہمیں بس زندہ رہنے کی اجازت دی ہے۔ ساتھ میں وہ طاقتیں ہمیں گاہے گاہے یہ احساس بھی دلاتی رہتی ہیں کہ تم غلام ہو اور غلامی میں جینے کے آداب سیکھ لو۔
سوال: جو کرب ناک صورت آپ نے بیان کی ہے، اس میں زندہ رہنے کے لیے اپنی امیدوں اور شان دار ماضی کی یاد کو ملا کر ایسے فلسفے گھڑنا تو پھر مجبوری ہےجن سے نشاطیہ کیفیات میسر رہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ ہم لوگ اس کیفیت میں جی رہے ہیں اور ایسے فلسفوں میں الجھے ہوئے ہیں؟ عین ممکن ہے یہیں سے نشاۃ ثانیہ کے دور کا آغاز ہو جائے۔
جواب: اس پر کیا روک لگائی جا سکتی ہے کہ اگر لوگ اپنے نشاط کے لیے موہوم خیالات میں رہنا چاہیں، بے شک رہیں، لیکن اس سے عملا ً کیا حاصل ہو گا؟ اس کے بجاے اگر وہ حقائق کی دنیا میں آئیں، اپنی منزل کا تعین کریں اور اس کی طرف سفر کا آغاز کریں۔ لاحاصل نشاط کے بجاے اُس نشاط کی طرف بڑھیں جس میں کچھ حاصل بھی ہو، ورنہ کیا ہو گا، وہ ہمیشہ دائرے کا سفر کرتے رہیں گے اور غلامی کی چکی میں پستے رہیں گے۔
اس کی عملی مثال میں،آپ ملائیشیا اور ترکی کو دیکھ سکتے ہیں۔ کبھی یہ ملک بھی وہیں کھڑے تھے جہاں آج پاکستان کھڑا ہے، لیکن انھوں نے اپنے حالات پر غور کیا اور اپنی داخلی تعمیر و ترقی کو ٹارگٹ کیا اور نتیجتاً وہ غلامی سے نکل گئے، اور بہتر حالات میں آ گئے، جب کہ ہم لوگ کیا کر رہے ہیں، اپنے نشاط کے لیے خواب دیکھ رہے ہیں، اور وہ خواب بھی تعمیر اور ترقی کے نہیں، بلکہ جامع مسجد دہلی اور لال قلعے پر پرچم لہرانے کے؛ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد گرم پانیوں سے گزر کر امریکہ پر قبضے کے ؛ اور پھر خلافت کے احیا کے خواب۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نشاط کے لیے کیا حسین خواب ہیں۔
سوال: اس صورت حال سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ شعر ہمارے لیے کہا گیا ہے :
مسئلے زیست کے ایسے بھی تھے جو حل نہ ہوئے
نیند پوری نہ ہوئی، خواب مکمل نہ ہوئے
ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف لوگ ہم سے خفا ہوتے ہیں کہ آپ پاکستان پر بہت تنقید کرتے ہیں، اور امید کی کوئی بات نہیں کرتے، مثبت باتوں کا ذکر نہیں کرتے؟ اس پر آپ کیا کہیں گے؟
جواب: دیکھیے، ڈاکٹر جب کسی مریض کو دیکھے گااور اس کے مرض کی سنگینی سے آگاہ ہونے کے بعد اگر اس کو غلط امید دے گا تو ایسا کر کے وہ مریض کے ساتھ زیادتی کرے گا۔ ایسے میں اس کا فرض یہی ہے کہ مریض کو مرض کی سنگینی سے آگاہ کرے تا کہ وہ اس مرض سے چھٹکارا پا سکے۔ بالکل اسی طرح،کسی قوم میں پائے جانے والے امراض کی اگر نشان دہی نہیں کی جائے گی، اور اس کے لحاظ سے اس کا علاج تجویز کر کے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا تو کیا یہ قوم کے ساتھ ہم دردی ہو گی یا دشمنی ؟ اب اگر ہم اپنی قوم کی بات کریں تو ہماری قومی تعمیر کے اندر کچھ خرابیاں مضمر ہیں۔ ان خرابیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں پہلا قدم اٹھانا ہے۔ اور وہ تبدیلی کا قدم ہے، اس کے بعد ہی ہماری ترقی کے سفر کا آغاز ہو گا۔
آپ ذرا ہمارے المیے کا اندازہ کیجیے کہ ہمارے ہاں لوگ آج بھی اس بحث میں پڑے ہوئے ہیں کہ پاکستان کیوں بنا؟ بننے کے بعد سے آج ستر سال ہو گئے ہیں، تعمیر و ترقی اور لائحۂ عمل تو ایک طرف لوگ اسی بحث سے آگے نہیں بڑھتے کہ ہم بنے کیوں تھے؟ کچھ زور لگا کر اس طرف کھینچ رہے ہوتے ہیں کہ ’پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الاّ اللہ‘ اور کچھ زور لگا کر اس کے مقابل میں قائد اعظم کی تقریر پیش کرتے ہیں کہ ہم تو ایک سیکولر اسٹیٹ بنے تھے۔ اور دل چسپ بات یہ ہے کہ دونوں اپنی اپنی طرف کے دلائل رکھتے ہیں ،اور دوسرے موقف کو نہ ماننے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یعنی پاکستان ایک مذہبی اسٹیٹ ہے یا قومی اسٹیٹ؟ یہ ایک دائرہ ہے، جس کا لوگ مسلسل سفر کر رہے ہیں۔
اسی طرح اور ایک دائرہ جس میں لوگ محوِ سفر ہیں، وہ ہے سول ملٹری کشمکش کا۔ ہمارے ہاں سیاست دان موجود ہیں، انتخابات کا طریقہ موجود ہے، جمہوریت موجود ہے، لیکن اس سارے کو جس طریقے سے چلنا چاہیے، ویسے نہیں چل رہا۔ اس میں ایک موقف تو واضح ہے کہ جمہوریت ہو اور وہ سادہ طریقے سے چلتی رہی اور حکمران لوگوں کی راے اور مرضی سے بدلتے رہیں، لیکن دوسری طرف ایسا طبقہ موجود ہے جو کہتا ہےکہ ملک ان لوگوں کے حوالے کر دیں جو سورۂ اخلاص نہیں پڑھ سکتے، جن کو اسمبلی میں تقریر کرنا نہیں آتی، یہاں سے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مداخلت ہوتی ہے۔ آپ دیکھیے، دنیا جن معاملات میں ایک سفر طے کر چکی ہے، تجربات سے گزر چکی ہے، وہ ہمارے لیے لائق اعتنا ہی نہیں ہیں۔
ان حالات میں کیا امید کی بات کریں۔ کیا یہ کہ پاکستان اگلے چند سالوں میں ایشین ٹائیگر بن جائے گا، یہ عالم اسلام کا قلعہ ہو گا، اور یہاں سے خلافت کا احیا ہو گا۔ میں سچائی کا طالب علم ہوں، اور ہمارے ملک کو جس قدر گہرے اور بڑے امراض لا حق ہیں، اس کے لیے Cosmetic change کی نہیں، بلکہ treatment کی ضرورت ہے۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ گٹر کے اوپر مخمل کا کپڑا رکھ دینے سے وہ بظاہر چھپ سکتا ہے، لیکن اس کی گندگی اور تعفن موجود رہتا ہے۔
سوال: اگلے سوال سے پہلے، یہاں میں موضوع سے ہٹ کر ایک چیز پوچھنا چاہوں گا کہ ہمارے اس پروگرام میں ایسے مہمان بھی آتے ہیں جن کے پاس بہت نالج ہوتا ہے، لیکن وہ گفتگو میں ادھر ادھر نکل جاتے ہیں، آپ کی گفتگو بہت مرتب اور مربوط ہوتی ہے، کیاآپ تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے رہے ہیں؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ گفتگو کا تعلق ہمیشہ ہمارے خیالات کی clarity کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں نے جن لوگوں کے ساتھ وقت گزارا، انھوں نے جو ایک چیز ہمیں سکھائی ہے،وہ یہ ہے کہ اپنے خیالات کو بہتر کریں۔ خیالات جتنے واضح ہوں گے، اظہار اتنا ہی سدید ہوجائے گا۔ ایک پہلو تو یہ ہے۔ دوسرا پہلو ہے زبان۔ زبان سے ہمیں محبت ہے۔ اردو زبان کے ساتھ ہم جیتے مرتے ہیں۔ زبان اصل میں ہمارے خیالات کا قالب بنتا ہے۔
مغرب اور ہمارا رویہ
سوال: فکرِ غامدی پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ لوگ مذہب کو لے کر معذرت خواہانہ جگہ سے بات کرتے ہیں، جب کہ ہمارا مذہب سچا ہے اور اس نے ہمیں ہر طرح کے معاملات میں رہنمائی دی ہے، تو پھر ہمیں رہنمائی دینے کے بجاے معذرت خواہانہ جگہ پرکھڑے ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
کیا آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم شکست خوردہ قوم ہیں، عالمی طاقتوں سے ہار گئے ہیں، لہٰذا جو دنیا کا بنایا ہوا ورلڈ آرڈر ہے، اسی کے اندر ایڈجسٹ ہو جائیں، اور اگر کہیں تھوڑی بہت گنجایش ملے تو دین کی بات بھی کہہ لیں، باقی جیسے تیسے ہو سکے وقت گزار لیں، جب کہ ہمارا دین الہامی ہے، ہمارا پیغام سچا ہے تو ہمیں عالمی طاقتوں سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ پر اعتراض کرنے والے لوگ اس حوالے سے علامہ اقبال کا حوالہ دیتے ہیں :
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
–
اور ان معترضین کا یہ بھی اصرار ہے کہ:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رَسولِ ہاشمی
جواب:آپ کے سوال کے دو حصے ہیں: پہلا حصہ ہم کیا سوچتے اور کیا کرتے ہیں، اس کی وضاحت میں بعد میں کرتا ہوں۔ دوسرا حصہ ان لوگوں کے بارے میں جو عالمی طاقتوں کے حوالے سے ایک خاص نظریہ رکھتے ہیں، جو آپ نے سوال میں بیان کیا۔ اس میں آپ دیکھیے کہ ایک طرف وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘ اور پھر کاسۂ گدائی لے کر بھیک مانگنے ان کے در پر چلے جاتے ہیں، جس کی بنیاد پر ہمارے ملک کی معیشت کا پہیہ چلتاہے۔ اسی طرح، اِس نظریے کو ماننے والے لوگ اُنھی ملکوں کی ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے، اُنھی کے ایجاد کردہ کیمرے اور اُن کے پوڈ کاسٹ مائک کے سامنے بیٹھ کر لوگوں کے دلوں میں عالمی استعمار اور مغربی طاقتوں کے خلاف باتیں سناتے ہیں، اور اُنھیں کامیاب انقلاب کی نوید سناتے ہیں۔ اگر وہ اپنے نظریے کی سچائی پر کامل یقین رکھتے ہیں تو انھیں یہ چاہیے کہ وہ ان ملکوں کی چیزوں پر انحصار کرنے کے بجاے اپنی بنیاد پر کھڑے ہوں، پتھر کے دور میں لوٹ جائیں اور وہاں سے Do and Die والی صورت حال بنا کر انقلاب لائیں۔
اس میں جو سمجھنے کی بات ہے، وہ یہ ہے کہ یہ تہذیبوں کی جنگ ہے۔ اور تہذیبوں کی جنگ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر نہیں لڑی جاتی۔ اس کے لیے پھر پہاڑوں پر جا کر لڑنا پڑے گا، جیسے طالبان نے لڑی۔ ــــــ جس کے بارے میں، میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ ان کی عقل پر ماتم اور جذبے پر رشک آتا ہے۔ ــــــ انھوں نے جو کہا، وہ اس پر عمل درآمد تو کرتے ہیں، جب کہ ہمارے لوگ یہاں محض کہانیاں سنا کر، غیر حقیقی اور جذباتی باتیں کر کے قوم کو بے وقوف بناتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِن لوگوں نے قوم کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔ یہ محض ایک تجزیہ نہیں ہے، بلکہ حقیقت کی دنیا میں اسے دیکھا جا سکتا ہے کہ ہماری قوم آج کہاں کھڑی ہوئی ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں ہمارے لوگ جو اس سے متاثر ہو رہے ہیں، انھیں جو نقصان پہنچ رہا ہے، وہ جس حال میں زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ انھیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہونے سے پہلے انھیں اس جگہ پہنچا دیا ہے کہ وہ بے چارے ان حالات کو اللہ کی طرف سے آزمایش سمجھ رہے ہیں، حالاں کہ یہ حالات ان تخریب کاروں کی کارستانی ہے، جب کہ ہمارے لوگ بے چارے اپنے پورے اخلاص کے ساتھ ان حالات کو سہ رہے ہیں، اور بدلے میں عالمی طاقتوں سے نفرت کر رہے ہیں۔
آپ دیکھیے، کس طرح ایک بیانیہ بنایا گیا، پھر اس بیانیے کو پوری سوسائٹی میں گلی،محلے کی سطح تک پہنچایا گیا، اور ایک پود تیار ہوئی، پھر اس کو عالمی استعمار سے نفرت سکھائی گئی۔ نتیجہ کیا نکلا ؟ ہماری ترقی ہوئی یا مزید حالات دگرگوں ہوئے۔ یہاں سوال بنتا ہے کہ کہاں ہے عظمت رفتہ کی باز یافت؟ مجھے یاد ہے، جب 11؍ستمبر کا واقعہ ہوا تو اس وقت ہمارے ’’دانش وروں‘‘ اور ’’مذہبی طبقوں‘‘کی خوشی دیدنی تھی۔ کیسے تفاخر سے کہتے تھے کہ یہ ہمارا خواب تھا جو شرمندۂ تعبیرہوا، بس اب دیکھیں امریکہ کہاں جاتا ہے اور ہم کہاں۔ اور آج دیکھ لیں، وہ کہاں ہے اور ہم آج بھی باج گزاری میں زندگی گزار رہے ہیں۔
جہاں تک آپ کے سوال کے پہلے حصے کا تعلق ہے، اس میں مختصر تفصیل کر دیتا ہوں۔ ہمارے نزدیک اہم بات یہ ہے کہ اسلام کیا کہتا ہے۔ ہم اللہ کو مانتے ہیں اور اس کے پیغمبر کو مانتے ہیں۔ اس کے بعد دنیا کے اندر جتنے بھی نظریات ہیں، چاہے وہ مسلم تہذیبی روایت نے پیدا کیے ہوں؛ چاہے وہ نظریات محرومی کی نفسیات سے پیدا ہوئے ہوں ؛ چاہے وہ نظریات عظمتِ رفتہ کی بازیافت میں ہوں، ہمارے لیے ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہم سر تسلیم خم کرتے ہیں تو صرف اللہ اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ خدا کا پیغمبر، اس کا منتخب فرستادہ روے زمین پر اس کے دین کا تنہا ماخذ ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ دین کے بارے میں جو بھی بات ہوگی، اس کی سند محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آئے گی۔ ہمارا پورا دینی ڈسکورس اس Conservatism پہ کھڑا ہوا ہے۔ ہم خارج، سماج، معاشرہ، افادیت، عدم افادیت، تعمیر، تخریب، ان سب سے ماوراء ہیں۔ ہماری غرض صرف انsources سے ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہمیں ملے ہیں۔
باقی رہی بات کہ ہمارا انداز معذرت خواہانہ ہے۔ ’من تشبہ بقوم فھو منہ‘ کی مثال سے میں آپ کو واضح کرتا ہوں کہ لوگ کیسے دلیل کے جواب میں دلیل دینے کے بجاے نتیجہ اخذ کر کے اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگوں کا ماننا ہے کہ اسلام ہمیں مغرب کے انداز اپنانے کے بجاے اس کی مخالفت کا کہتا ہے۔ اور اس میں وہ رسول اللہ کا قول نقل کرتے ہیں : ’من تشبہ بقوم فھو منہ‘،”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انھی میں سے ہے۔“اس پر ہمارا کہنا یہ ہے کہ کلام چونکہ اپنا contextرکھتا ہے، اس کے لیے اس کی تفہیم کے لیے ہمیں اسے دیکھنا چاہیے۔ اب اس مکمل حدیث کو دیکھیے: ’بعثت بين يدي الساعة بالسيف، حتى يعبد اللّٰه وحده، لا شريك له، وجعل رزقي تحت ظل رمحي، وجعل الذل والصغار على من خالف أمري، ومن تشبه بقوم فهو منهم‘، ’’اللہ نے قیامت تک مجھے تلوار دی ہے، حتیٰ کہ اکیلے اللہ کی عبادت ہونے لگے جس کا کوئی شریک نہیں اور میرا رزق میری تلوار کے سایے میں رکھا گیا ہے اور ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنائی گئی ہے جو میرے طریقہ کی مخالفت کرے، اور جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انھی میں سے ہے‘‘(شعب الایمان،رقم1199)۔
اس میں رسولوں کا خاص قانون ’’اتمام حجت‘‘ بیان ہوا ہے۔ اسی تناظر میں بات ہے، اللہ کہہ رہا ہے کہ تلواروں کے سایے میں تمھارا رزق رکھ دیا ہے، جو تمھاری مخالفت کرے گا، نیست و نابود ہو گا۔ چنانچہ اب خدا کے عذاب کا موقع آگیا ہے۔ جس نے جس قوم کے ساتھ ہونا ہے،الگ الگ ہو جاؤ، کیونکہ فیصلہ ہونے والا ہے۔
اب اس پر دلیل دینے کے بجاے آپ مجھے کہہ سکتے ہیں کہ آپ تو اصل میں Apologetic ہوگئے ہیں۔حدیث کے واضح حکم کے ہوتے ہوئے مغرب کو رد کرنے کے بجاے ان کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ تو پھر میں پلٹ کے یہ کہوں گا کہ آپ اصل میں Islamism، اپنی سیاسی برتری کی بازیافت میں دین کے جو بنیادی مقدمات ہیں، ان کو براہ راست سمجھنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں، آپ کا معاملہ دین سے دوری ہے، نہ کہ ہمارا معاملہ apology کا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ